ناول جِند
تحریر زید ذوالفقار
قسط نمبر 03
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Jind Novel by Zaid Zulfiqar Episode 03
اگلے دن وہ اس سے کتراتی پھری تھی۔ اس نے ایک دو بار بات کرنے کی کوشش کی تو نظرانداز کردیا۔ کچھ پوچھا تو سنی ان سنی کردی۔ وہ اپنا سا منہ لیکر رہ گیا۔ وارڈ کے راؤنڈ کے دوران بھی حتی الامکان کوشش کی کہ اس سے سامنا نا ہی ہو۔
وہ محسوس کر رہا تھا۔
بیوقوف نہیں تھا۔ ( سرجن تھا بھئی مذاق تھوڑی ہے )
خیر۔۔۔۔
وہ گھر کے لئیے نکل رہی تھی جب وہ پیچھے ہی آیا۔
" میں چھوڑ دوں آپکو ڈاکٹر فاطمہ ؟؟؟؟ "
" کیوں ؟؟؟؟ "
وہ زرا درشتی سے بولی تھی۔ وہ گڑبڑا گیا
" کیوں مطلب۔۔۔۔ مطلب ویسے ہی ازراہِ۔۔۔۔۔ "
اس نے سینے پہ بازو لپیٹے تھے
" میں کوئی دودھ پیتی بچی ہوں ڈاکٹر جسے آپکی توجہ اور گورنس کی ضرورت ہے ؟؟؟؟؟ "
وہ اسے دیکھ کر رہ گیا
" میں اپنا خیال خود رکھ سکتی ہوں۔ میں خود سے آ جا سکتی ہوں، خود سے سوالوں کے جواب گھڑ سکتی ہوں اور کسی کے احسان کے بغیر بھی سب سیکھ سکتی ہوں۔۔۔۔ "
" تو وہ احسان ہے جو میں کرتا ہوں ؟؟؟؟؟ "
" اور کیا ہے ؟؟؟؟؟؟ "
اس نے اسے بغور دیکھا تھا۔
" کیا چل رہا ہے آپ کے دماغ میں ڈاکٹر فاطمہ ؟؟؟؟ "
فاطمہ نے کچھ دیر سوچا اور پھر پوچھ ہی لیا
" عروج مہر علی کون ہے ؟؟؟؟؟ "
وہ ایک سانس بھر کر رہ گیا تھا
" مہران۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "
وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی
" اس نے کیا کہا آپ سے ؟؟؟؟ "
" اس سے کیا فرق پڑتا ہے ڈاکٹر بلال ؟؟؟؟ "
" تو یہ آپ نے ان سے کیوں نہیں پوچھا کہ وہ کون ہے ؟؟؟؟؟ "
" یہ میں اس سے کیوں نا پوچھوں جس کی بات ہے "
اس نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔
" ٹھیک ہے۔ لیکن پہلے یہ بتائیں آپکو جواب چاہئیے یا وضاحت ؟؟؟؟؟ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے خود بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ اسکے ساتھ وہاں کیوں آئی تھی۔ مہران کی باتوں کے بعد بھی وہ اس شخص کے ساتھ اسکے کہنے پہ چل پڑی تھی۔ شائد اندر سے کہیں وہ بھی اسے بے قصور دیکھنا چاہتی تھی۔ شائد اسے مہران کی باتوں پہ یقین نہیں آیا تھا۔
اب بھی گاڑی میں فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے ہوۓ اس نے کن انکھیوں سے دیکھا تھا۔
وہ اسے دیکھے بغیر، کچھ بھی کہے بنا بس ڈرائیو کرتا جا رہا تھا۔ اس نے بچپن سے ہی جرگے میں مجرموں کو دیکھتی آ رہی تھی۔ وہ انکی آنکھیں دیکھ کر بتا سکتی تھی کہ وہ سچی ہیں یا مکار ہیں۔ انکی شکلیں اسکے برابر میں موجود انسان کی صورت سے میل نہیں کھاتی تھیں۔
" ہم کہاں جا رہے ہیں ؟؟؟؟؟ "
اس نے پوچھا تھا
" جواب لینے۔۔۔۔۔۔ "
وہ کچھ دیر کو چپ رہی
" اور اگر میں کہتی مجھے وضاحت چاہئیے ؟؟؟؟ "
" تو شائد وہ میں نا کر پاتا۔۔۔۔۔ میں اپنی صفائی میں کچھ بھی نہیں کہوں گا فاطمہ۔۔۔۔۔۔ "
گاڑی اس کوٹھی کے سامنے رک گئی تھی۔ وہ اترنے کا کہہ کر اترا تو وہ بھی پیچھے ہی آ گئی۔ دروازے پہ لگی نیم پلیٹ دیکھ کر وہ چونک گئی۔
" مہر علی ( اسسٹنٹ پروفیسر پتھالوجی ) "
" تت۔۔۔۔ تو کیا۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟ "
" وہ میرے استاد رہ چکے ہیں۔ عروج انکی بیٹی ہے۔ میری بیچ میٹ۔۔۔۔۔ "
انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا تھا۔ کچھ ہی دیر میں وہ لڑکی اندر آئی تھی۔
اچھی خوبصورت۔۔۔۔ زرد ٹراوزر اور شرٹ میں ملبوس۔۔۔۔ اپنی کلاس سے میچ کھاتی ہوئی۔۔۔ ڈیسنٹ سی لڑکی۔۔۔۔۔
" تم۔۔۔۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی۔۔۔۔ "
وہ اسے دیکھتے ہی چلائی تھی
" جانور۔۔۔۔۔ اب کیا لینے آۓ ہو یہاں ؟؟؟ ہاں ؟؟؟ مجھے برباد کر کے تمہارا دل نہیں بھرا جو پھر سے آ گۓ ہو ؟؟؟؟؟ "
وہ چلا چلا کر کہہ رہی تھی۔ وہ خاموشی سے سن رہا تھا۔
" کہہ لو۔۔۔ جو کہنا ہے کہہ لو۔۔۔ سب بتاؤ۔۔۔۔ کیا کیا میں نے تمہارے ساتھ "
" تم نے میری زندگی برباد کر دی ذلیل آدمی۔۔۔ تمہاری وجہ سے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی۔۔۔ تمہارے جیسا کمینہ انسان میں نے ساری زندگی نہیں دیکھا۔۔۔۔ "
" اچھا۔۔۔۔ ایسا کیا کردیا میں نے ؟؟؟؟ "
فاطمہ کسی خاموش تماشائی کی طرح حق دق سی بیٹھی انہیں لڑتا دیکھ رہی تھی
" اپنے بیسٹ فرینڈ کی منگیتر کے ساتھ زبردستی کرنا کمینگی نہیں ہوتی ؟؟؟؟؟؟؟ "
" تو یہ مہران اور تمہاری بات ہو رہی ہے ؟؟؟؟؟ "
" جسٹ شٹ اپ اور دفعان ہوجاؤ۔۔۔۔ ابھی اسی وقت نکل جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔ "
بلال نے نظریں موڑ کر اسے دیکھا تھا۔ وہ ساکت بیٹھی اسے ہی دیکھ رہی تھی
" تمہیں جواب چاہئیے تھا ناں۔۔۔۔ میرا جواب ہے نہیں۔۔۔۔ یہ جو جو باتیں کہہ رہی ہے، جو جو کچھ مہران نے کہا ہے وہ سب جھوٹ ہے ڈاکٹر فاطمہ۔۔۔۔ میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔۔۔ "
وہ کہہ کر رکا نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" Do you trsut me ???? "
اس نے پوچھا تو وہ بہت دیر تک جواب دے نہیں سکی تھی۔ اسے خود بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ اس پہ بھروسہ کرتی ہے یا نہیں۔
" آپ سچے ہیں تو وہ جھوٹ کیوں گھڑ رہی ہے بلال ؟؟ "
" میں سچا ہوں تو چلا چلا کر مجمع اکٹھا کیوں نہیں کر رہا ؟؟؟؟ اور وہ یہ سب کیوں نہیں کر رہی ؟؟؟؟؟ "
وہ چپ رہ گئی تھی
" تمہیں مجھ پہ بھروسہ نہیں ہے ؟؟؟؟؟ "
" اگر میں کہوں ہے ؟؟؟ "
" تو میں کہوں گا شکریہ۔۔۔۔۔ "
وہ ایک بار پھر خاموش رہ گئی تھی۔
" شکریہ !!!!! "
بہت سارے لمحے خاموشی سے گزر گۓ تھے۔ بلال نے ابھی تک گاڑی سٹارٹ نہیں کی تھی۔ وہ اس گھر کے سامنے ہی کھڑے تھے۔ سامنے کے شیشے سے بالائی منزل نظر آ رہی تھی جہاں کھڑکی میں عروج کھڑی تھی۔ وہ انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔
" آپ مجھ سے شادی کریں گی ؟؟؟؟؟؟ "
وہ اسکی کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ وہ بہت زیادہ غیر متوقع تھا۔ بہت دیر تک تو اسے اپنی سماعتوں پہ یقین نہیں آیا تھا۔
" مجھے پتہ ہے یہ بہت جلدی ہے لیکن جب آپ کسی کو پسند کرتے ہو تو کچھ بھی جلدی اور غیر متوقع نہیں ہوتا۔ "
وہ کہہ رہا تھا
" میں ایڈمٹ کرتا ہوں کہ میں واقعی آپکو پسند کرتا ہوں ڈاکٹر فاطمہ۔ میں واقعی میں سپ کو اپنانا چاہتا ہوں۔ "
وہ سر جھکاۓ، ہاتھ گود میں رکھے بیٹھی تھی۔
" اج ہمارے درمیان میں مہران آیا ہے، کل کوئی اور ہوگا پرسوں کوئی اور ۔۔۔۔ میں ہر بار دلیلیں نہیں دے سکوں گا لیکن اگر آپ میرے ساتھ ہوئیں تو اسکی ضرورت نہیں پڑے گی۔ "
وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا
" کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ اگر آپکی مرضی ہے تو مجھے کہہ دیجئیے گا۔ اور اگر نہیں بھی تب بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آپکی راۓ اہم ہے اور سب سے اہم رہے گی۔۔۔۔۔ ڈونٹ وری، آپکا انکار میرے لئیے محترم ہوگا۔ اتنا ہی جتنی آپکی ہاں۔۔۔۔ "
اس نے گاڑی سٹارٹ کی تھی۔
باقی کا سارا راستہ اس نے کوئی بات نہیں کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" واٹ ؟؟؟؟ پرپوزل ؟؟؟؟؟؟؟ "
عینی کی آنکھیں ابل پڑی تھیں۔ وہ خاموشی سے سانس بھر کر رہ گئی۔
" مطلب سیدھا اس بندے نے شادی کا پوچھ لیا ؟؟؟؟ آئی لو یو بھی نہیں کہا ؟؟؟؟ "
" آئ ہیٹ دس ورڈ۔۔۔۔ لگتا ہے جیسے کوئی گالی ہو۔ گالی ہی بنادی ہے آجکل محبت سب نے۔۔۔۔ "
وہ ہولے سے ہنسی
" بندہ ہے ویسے امپریسو۔۔۔۔ پھر اب ؟؟؟ "
" پھر اب کیا ؟؟؟؟ "
" پھر یہ کہ تم نے کیا کہا ؟؟؟؟ "
" میں نے کچھ بھی نہیں کہا۔۔۔ اس نے ہی کہا کہ سوچ لو، وقت لے لو پھر بتا دینا۔۔۔۔ "
" اب تم سوچ رہی ہو ؟؟؟ مطلب ابھی بھی سوچنے کی گنجائش ہے لڑکی ؟؟؟ "
فاطمہ نے اسے بغور دیکھا تھا
" عینی یہ کوئی دھواں دھار فلمی محبت نہیں ہے پہلی نظر میں عشق ہوا اور اب بس ایک دوسرے کا ساتھ چاہئیے۔ یہ کوئی کہانی افسانہ نہیں ہے کہ ہیروئن ہیرو کے پرپوزل پہ پھولے نا سماۓ۔ یہ بھی نہیں ہے کہ وہ میرے بغیر مر جاۓ گا یا میں کوئی جوگ لے لوں گی۔ یہ بس ایک پرپوزل ہے "
" یہ ایک اچھا پرپوزل ہے "
وہ چپ رہ گئی
" اچھا اسے ریجیکٹ کرتی ہو پھر کیا ؟؟؟؟ کسی تایا زاد، یا چچا زاد سے بیاہ دی جاؤ گی۔ یہ کرنا چاہتی ہو ؟؟؟؟؟ "
وہ یہ کم از کم نہیں چاہتی تھی
" اسکی پسند ایک طرف رکھ کر اس رشتے کو ایک رشتے کے طور پہ دیکھو۔ وہ خوش شکل ہے، اچھی پوسٹ پہ ہے، اچھے خاندان سے ہے۔۔۔۔ اور کیا دیکھنا ہوتا ہے اس سب میں ؟؟؟؟؟ "
" میرا خاندان۔۔۔۔ وہ مان لیں گے ؟؟؟؟ "
" انکل ضرور مانیں گے۔۔۔۔ اگر تم کہو گی تو وہ ضرور مانیں گے "
اس نے شدت سے نفی میں سر ہلایا تھا
" اپنے منہ سے باپ کے سامنے رشتے کی بات اور وہ بھی پسند کی۔۔۔۔۔ ہرگز ہرگز نہیں۔۔۔۔۔ "
" مجھے پتہ ہے تجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ تو یہ کر سکے لیکن فاطمہ۔۔۔ میرا مشورہ ہے کہ یہ کر جا۔۔۔ اپنے لئیے۔۔۔ یہ گناہ نہیں ہوگا۔۔۔ وہ اتنے تنگدل نہیں ہیں۔ وہ تیری ضرور سنیں گے۔۔۔۔ وہ کم از کم تیرے گنوار کزنز پہ اسے فوقیت ہی دیں گے۔۔۔۔ میری بہن ہمت کر لے۔۔۔ اپنے لئیے۔۔۔۔۔ "
وہ ناخن چباتی کسی سوچ میں گم تھی۔
" یہ قسمت کی طرف سے ایک موقع ہے تیرے لئیے۔۔۔ تو ساری زندگی کے لئیے اس جنجال سے نکل جاۓ گی فاطمہ۔۔۔۔۔ "
" جیسے میری ماں کو محبت نے ہر جنجال سے آزاد کردیا تھا ؟؟؟؟؟؟؟ "
وہ ایک لمحے کو چپ رہ گئی
" تجھے بیاہ کر اپنے باپ کے جیسے گھر میں نہیں جانا ہوگا فاطمہ۔۔۔۔ بلکہ اس گھر کو ہمیشہ کے لئیے چھوڑنا ہوگا۔۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب ڈاکٹرز کانفرنس روم میں جمع تھے۔
کل کے او ٹی کے لئیے ان کو آپریشن دئیے جارہے تھے کہ کون کسے آپریٹ کرے گا۔ ڈاکٹر انصاری نے وہ فائل مہران کی طرف بڑھائی تھی۔
" یہ آپ کریں گے ڈاکٹر مہران "
اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ تبھی بلال ہولے سے کھنکارا تھا
" ایکسکیوزمی سر۔۔۔ یہ کیس مجھے آپریٹ کرنا ہے "
اس نے کہا تھا
" ڈاکٹر مہران کو آپ کچھ اور دیدیں۔ بلکہ یہ میرے والا تھائی رائیڈ دیدیں، میں تو یہ کئ بار کر چکا "
" نو سر۔۔۔ میں یہی کروں گا "
" نو سر۔۔۔ یہ کیس مجھے چاہئیے "
مہران نے اسے آنکھیں دکھائی تھیں
" اپنے کام سے کام رکھو "
" میں نے تم سے بات کی ہے ؟؟؟ "
" میری بات تو کی ہے "
" شٹ اپ۔۔۔ "
" یو شٹ اپ "
" بس۔۔۔۔۔۔ !!!!!! "
انصاری صاحب نے ہاتھ اٹھا کر دونوں کو چپ کروایا تھا
" ڈاکٹر مہران آپ تھائی رائیڈ کرلیں "
" یہ فئیر نہیں ہے سر۔ ہر بار اسکی سائیڈ لیتے ہیں آپ۔ یہ زیادتی ہے۔ میں اپنا کیس کیوں دوں "
انہوں نے لاچارگی سے اسے دیکھا
" چلیں بلال کوئی بات نہیں۔۔۔ اگلی بار سہی "
اس نے نفی میں سر ہلایا
" نو سر۔۔۔ مجھے یہی چاہئیے۔۔۔ بس "
" یہ تو نہیں ملنے والا "
مہران نے استہزاء سے انگلی دکھائی تھی۔
" اپنی حد میں رہ ذلیل آدمی۔۔۔۔ "
وہ چلایا تھا۔ جواباً وہ ہنسا۔
" لگتا ہے بہت زیادہ مرچیں لگ رہی ہیں تجھے۔۔۔۔ سالے کبھی تو کسی کے پاس کچھ دیکھ کر خوش ہو جایا کر۔۔۔۔ حاسدی۔۔۔ غاصب انسان "
بلال اٹھ کر اس پہ پل پڑا تھا۔
" بس۔۔۔۔ میں کہہ رہا ہوں بس۔۔۔۔ "
انکی وہاں کون سنتا۔ اور وہ ایک کیس کی بات تھی ہی کہاں۔ وہ تو انکے اپنے اپنے حساب تھے۔
" اس سے دور رہ۔۔۔ آئیندہ اسکے نزدیک دِکھا تو تیری ٹانگیں توڑ دوں گا "
" کیوں تیری بہن لگتی ہے وہ ؟؟؟؟ "
" تیری تو۔۔۔۔ "
بلال نے اسکی ناک پہ دو تین گھونسے مارے تھے۔ جواباً مہران کا مکا اسکے ہونٹ پہ لگا تھا۔
" بس کرو۔۔۔۔ "
باقی ڈاکٹرز نے انہیں علیحدہ کیا تھا۔ انصاری صاحب غصے سے ان کو دیکھ رہے تھے۔
" تم بچے ہو ؟؟؟؟؟ کہاں سے تم دونوں سینسیبل انسان نظر آرہے ہو ؟؟؟ گنوار بھی ایسے نہیں لڑتے۔۔۔۔ "
" سر اسے کہیں یہ اپنی حد کراس نا کرے۔۔۔ "
" اور تیری حد ؟؟؟ اسکا کیا ؟؟؟؟ "
" بکواس بند کرو دونوں۔۔۔۔ "
وہ پھر سے چلاۓ تھے۔
" دفعان ہوجاو تم دونوں۔۔۔ مجھے تم دونوں میں سے کوئی یہاں نہیں چاہئیے۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔ کوئی بھی نہیں کرے گا سرجری۔۔۔۔۔ نکل جاؤ میرے وارڈ سے۔۔۔۔۔ جاؤ چلے جاؤ۔۔۔۔ نکلو۔۔۔۔۔ "
بلال نے پھٹے ہونٹ سے بہتا خون کف سے صاف کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطمہ نے اسکی نیل سے ڈھکی آنکھ اور سوجے ہوۓ ہونٹ کو حیرت سے دیکھا تھا۔
" آپ لڑے ہیں ان سے ؟؟؟؟ "
وہ ہنسا
" یہاں سب لوگ کہتے ہیں وہ اور میں دو دن لڑیں نہیں تو ہماری روٹی ہضم نہیں ہوتی ۔۔۔۔ "
" تب کی تب تھی بلال۔ میں نے سنا کہ آپکی لڑائی میں سب نے میرا نام سنا ہے۔۔۔۔ "
وہ اسے دیکھ کر رہ گیا
" مجھے کچھ سمجھتی ہو، میرے کہے کی کچھ اہمیت ہے تو میں کچھ کہوں فاطمہ ؟؟؟؟ "
" جی "
" وہ میری بابت جو بھی بات کرے فاطمہ تو سن کر بس اپنے اندر مت رکھنا۔ مجھ سے پوچھنا کہ ایسا کیوں۔۔۔۔ زبان سے پوچھنا یا تھپڑ مار کے، لیکن پوچھنا مجھ سے۔۔۔۔۔ یہ کوئی حکم نہیں ہے، ایک التجا ہے۔۔۔۔ "
وہ پچھلی پوری شام اس چہرے کو سوچتی رہی تھی۔
وہ شخص کیا چیز تھا۔۔۔
وہ شخص ہولے ہولے اسکے وجود میں اپنی جگہ بناتا جا رہا تھا۔ وہ اسے سوچتی جا رہی تھی تو وہ وہاں تھا۔ اسکی سوچوں میں اس نے اپنا حصہ بنا لیا تھا۔
" کہاں کھو گئیں ؟؟؟؟؟ "
" کہیں بھی نہیں۔۔۔۔ "
وہ چپ رہ گئی تھی۔
" فیصلہ نہیں ہوا ابھی تک ؟؟؟؟؟ "
فاطمہ نے نظریں جھکا لی تھیں
" میں اپنا کیس لڑ سکتا ہوں ڈاکٹر صاحبہ۔۔۔۔ میں اپنے دلائل دے سکتا ہوں۔۔۔۔ اتنا حق تو رکھتا ہوں "
وہ زرا رکا
" میری شکل صورت پہ تو کوئی نمبر نہیں ملے گا۔۔۔ ہے ناں ؟؟؟ ایسا کوئی رجہ شہزادہ بھی نہیں ہوں میں۔۔۔۔ یہ نمبر بھی گیا۔۔۔۔ سرجن ہوں۔۔۔ وہ تو تم بھی ہو۔۔۔۔ اسکے کچھ نمبر ملیں گے ؟؟؟؟؟ "
وہ مسکراہٹ دباۓ کہتا جا رہا تھا۔
" اور تم سے کہا تھا تم اچھی لگتی ہو۔ تو یہ چاہت کوئی نمبر دے سکتی ہے مجھے ؟؟؟؟؟؟ "
اب کے اس نے جھکا سر اٹھایا تھا
" آپکے لئیے میں نے اپنے دل کی گواہی کو سب سے معتبر مانا ہے ڈاکٹر بلال۔۔۔۔ "
وہ زرا رکی تھی
" اور یہ کہتا ہے ہاں کردو۔۔۔۔ "
اس نے کہا تھا۔
بلال نے سر دیوار سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں اور دیر تک مسکراتا رہا تھا۔ وہ نظریں جھکاۓ واپسی کے لئیے پلٹ گئی تھی۔ بلال ظفر کو اپنے آپ پہ بے تحاشا رشک آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" تجھے کیوں لگا کہ میں تیری بات سن کر تیرا منہ ماتھا چوموں گی بلال ؟؟؟؟؟ "
وہ اس کے لئیے تیار تھا۔ اسے پتہ تھا وہ ہرگز نہیں مانیں گی۔ اول تو خاندان سے باہر، اوپر سے وہ انکی ذات تو کیا انکی زبان کی بھی نہیں تھی۔
" ہرگز نہیں۔۔۔ میں مر جاؤں تب بھی نہیں۔۔۔ "
اس نے انہیں بغور دیکھا
" پر میں اسے زبان دے چکا ہوں والدہ۔ آپ نے ہی سکھایا ہے کہ زبان کی کیا اہمیت ہے "
" اور ماں کی اہمیت ؟؟؟ اسکی مرضی ؟؟؟؟ اسکی کوئی اہمیت ہے کہ نہیں ؟؟؟؟؟ "
" اسکی کوئی وقعت نا ہوتی تو میں یہاں کیوں ہوتا والدہ ؟؟؟؟ "
" اور میں کہہ رہی ہوں میرا انکار ہے "
اس نے نفی میں سر ہلادیا تھا
" ایسے نہیں۔ یہ زبان ذات اور خاندان کے طوق ایک طرف رکھ کر بات کریں۔ میں دلیل سے قائل کرنے آیا ہوں اماں، دلیل سے ہی قائل ہوں گا "
وہ اسے دیکھ کر رہ گئی تھیں
" اپنی ساری پڑھائیاں ماں پہ آزماۓ گا "
" نہیں۔۔۔ کوئی کسی کو نا آزماۓ۔ میں آپکو نا آپ مجھے۔۔۔۔ "
وہ زرا رکا اور رسان سے انکا ہاتھ تھاما
" وہ میری پسند ہے اماں۔ مجھے اسکا حق نہیں ہے ؟؟؟ "
" ماں کے حق بتاؤں میں تجھے ؟؟؟؟ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو اپنی بیوی کو طلاق دینے کا کہہ دیا تھا۔ کیوں ؟؟؟ کیونکہ اسکی ماں کہہ رہی تھی۔ "
" آپ ماں بن کر تو انکار نہیں کر رہی ہیں۔ آپ تو سردار سرکار ہیں۔ اونچی ذات، چھوٹے لوگ، یہ زبان وہ خاندان۔۔۔۔ اس زمانے کی ماں یہ سب نہیں سوچتی تھی والدہ۔ آپ ماں بن کر کہیں گی تو جان حاظر ہے لیکن۔۔۔۔۔۔ ماں تو بنیں۔۔۔۔ "
وہ بولتا چلا گیا تھا۔ بے بسی سے۔۔۔۔
" دیکھ پتر۔۔۔ اس خاندان میں ملاوٹ ممکن نہیں ہے۔ کم از کم میرے جیتے جی نہیں۔ تو یہ نا سمجھنا کہ تو پتر ہے، سب سے چھوٹا ہے، لاڈلہ ہے تو شتر بے مہار ہے۔۔۔۔ کسی بھول میں نا رہنا۔۔۔۔ "
وہ انہیں دیکھ کر رہ گیا
" شادی تو میں اسی سے کروں گا اماں۔۔۔۔ "
" ماں کو چھوڑ دے گا۔۔۔۔ ؟؟؟؟ "
اس نے نفی میں سر ہلایا
" اوں ہوں۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ میں کوئی کمزور مرد نہیں ہوں جو رشتوں کی ترازو میں انصاف نا رکھ سکے۔ میں ڈنڈی نہیں ماروں گا اماں۔ جو آپکا حق ہے وہ آپکا ہے، جو میرا حق ہے، وہ میرا ہے۔ اسے چھوڑوں گا اور نا ہی آپکو۔۔۔۔ اپ مانو یا نا مانو۔۔۔۔۔ "
وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
" زبان ذات اور خاندان سے بہت اونچی میری محبت ہے۔۔۔۔۔۔ ماں کے لئیے محبت۔۔۔ اپنی ذات کے لئیے۔۔۔۔ اور۔۔۔ اسکے لئیے۔۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے اسے سر تا پا بغور دیکھا تھا۔ وہ سفید شرٹ اور بلیک پینٹ میں ملبوس تھا۔ گلے میں ٹائ، سلیقے سے بنے بال۔۔۔ مطلب انٹرویو کے لئیے تیار۔۔۔
لیکن وہ کوئی انٹرویو تو نہیں تھا۔ وہ تو ایک بیٹی کے باپ کی ایک ایسے شخص کے ساتھ نشست تھی جو اسکا طالب تھا۔
" تمہاری والدہ ؟؟؟ یا گھر سے کوئی نہیں آیا ؟؟؟ "
" ابو میرے حیات نہیں ہیں سر۔ والدہ کا میں جھوٹ نہیں بولوں گا اور نا ہی کوئی وعدہ کروں گا۔ وہ اپنے اصولوں اور روایات کی پکی ہیں۔ اپنی ذات اور خاندان کے لئیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں۔ میں انہیں نہیں منا سکا۔ منا سکوں گا بھی کہ نہیں، اسکی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔۔۔۔۔ "
وہ اسے دیکھ کر رہ گۓ
" نافرمان ہو ؟؟؟؟ "
" میں خود کو بھی جسٹی فائی نہیں کروں گا سر۔ یقیناً میں بھی ایک ضدی ماں کی اولاد ہوں۔ میں بھی بغاوت پہ اترا ہوا ہو سکتا ہوں سر لیکن وہ حالات بھی تو دیکھیں ناں۔ جائز حقوق کو ناجائز طریقے سے دبایا جاۓ گا تو بغاوت ہی جنم لے گی "
" تم سچ کچھ زیادہ ہی بولتے ہو "
" کیا کروں سر۔۔۔۔ بس یہی تو آتا ہے "
انہوں نے سر ہلایا
" میرا خاندان بھی تمہیں قبول نہیں کرے گا۔ دو دو محاظوں پہ جنگ لڑ لو گے ؟؟؟؟ "
وہ مسکرایا
" جنگ کس کافر کو لڑنی ہے سر۔۔۔۔ ہم تو محبت والے لوگوں ہیں۔ زخم دینے والوں میں سے نہیں ہوں، سینے والوں میں سے ہوں۔ "
" میری بیٹی خوش رہے گی تمہارے ساتھ ؟؟؟؟ "
" میں بہت خوش رہوں گا اسکے ساتھ۔۔۔۔ وہ رہے گی یا نہیں، یہ تو وہ بتا سکتی ہے۔۔۔۔ "
وہ زرا کی زرا چپ رہے تھے۔
اسی شام انہوں نے اس سے پوچھا تھا۔
" تم خوش رہو گی اسکے ساتھ ؟؟؟؟ "
" آپ کو کیا لگتا ہے ابو ؟؟؟؟ میں خوش رہوں گی ؟؟ "
" اسکی گارنٹی دنیا کا کوئی باپ نہیں دے سکتا میڈی دھی۔۔۔۔ دے سکتا تو رونا کس بات کا ہوتا۔۔۔۔ "
وہ چپ رہ گئی
" مجھے بندے پرکھنا نہیں آتا ابو۔۔۔ فیصلہ آپ کریں، جو ٹھیک لگے۔۔۔۔۔ "
اچھی بیٹیاں۔۔۔ اچھی لڑکیاں۔۔۔۔
یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ان کے ماں باپ اچھے نا ہوں۔۔۔ دنیا کے کوئی ماں باپ برے نہیں ہوتے۔۔۔ بس وہ اپنی اولاد کے لئیے کس شے کو خوشی گردانتے ہیں، یہ ان پہ اچھا برا ہونے کا لیبل لگاتا ہے۔ ہم کسی کے لئیے جو خیر سمجھ رہے ہیں، شائد اسکی طرف سے دیکھیں تو وہ شر ہو۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ وجود درخت سے بندھا ہوا تھا۔
ڈوپٹے سے بے نیاز۔۔۔۔ شانوں تک بکھرے بال۔۔۔۔ سوکھے ہونٹ۔۔۔ حال سے بے حال۔۔۔۔
وہ مجمع بہت اشتعال میں تھا۔ سر پہ پگڑیاں باندھے، کلف زدہ کپڑوں میں ملبوس آدمی جو ہاتھوں میں پتھر لئیے ہوۓ تھے۔ وہ اسے گالیاں دیتے پتھر برسا رہے تھے۔ وہ درد اور تکلیف سے کراہتی تھی، چلاتی تھی، روتی تھی پر رحم۔۔۔۔۔۔
وہ کسی کی آنکھوں میں نہیں تھا۔
اسکے وجود پہ جا بجا زخم بن چکے تھے۔ جگہ جگہ سے خون بہنے لگا تھا۔
" بے حیا۔۔۔۔ بے غیرت۔۔۔۔۔ لعنت ہے۔۔۔۔ "
اس آدمی نے وہ بڑا سا پتھر اس پہ اچھالا۔ وہ درد کی شدت سے چیخ پڑی تھی۔
فاطمہ چیخ مار کے اٹھ بیٹھی تھی۔
کمرے میں ملجگا سا اندھیرا تھا۔ دور تک سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ وہ بیٹھی لمبے لمبے سانس لیتی، ہانپ رہی تھی۔ اسکا سارا وجود پسینے میں بھیگ چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
Post a Comment
Post a Comment