ناول جِند
تحریر زید ذوالفقار
قسط نمبر 05
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیرونی دروازہ دھاڑ سے کھلا تھا۔
برآمدے میں بیٹھے ان افراد نے چونک کر دیکھا تھا۔
کاندھوں پہ شال اور سر پہ ڈوپٹہ لئیے فاطمہ انکی طرف ہی جا رہی تھی۔ اسکی چال ہی کچھ اور تھی۔ اسکا انداز ہی الگ تھا۔
ان میں سے کسی نے بھی آج سے پہلے اسے یوں نہیں دیکھا تھا۔ وہ سر تان کر، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھورتی ہوئی انکے قریب آئی تھی
" تو یہاں کیا کر رہی ہے ؟؟؟ پتہ نہیں ہے کہ یہاں عورت۔۔۔۔۔۔ "
" شٹ اپ !!!! "
وہ حلق کے بل چلائی تھی۔ وہ ایک لمحے کو چپ رہ گیا تھا۔
" میں تمہاری بکواس نہیں سننے آئ ہوں بھائی مجاہد۔ میری سنو۔۔۔ اور غور سے سنو۔۔۔ "
وہ جیسے ان سب پہ قہر بن کے ٹوٹ جانا چاہتی تھی۔
" وہ شخص میرا محافظ ہے تو وہ میری حفاظت میں بھی ہے۔ اسے کچھ ہوگا تو میں سکون سے نہیں بیٹھوں گی "
" اوہ کیا بکواس کر رہی ہے فاطمہ۔۔۔ ہوش میں تو ہے ؟؟؟؟؟؟ "
" ابھی ابھی ہوش میں آئ ہوں۔ اور ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے جو چہرہ دیکھا ہے، وہ میرے شوہر کا ہے۔ وہی چہرہ میں اپنی آخری سانس لینے سے پہلے دیکھنا چاہتی ہوں۔ تو آئندہ اس پہ حملہ کرنے سے پہلے مجھ پہ حملہ کرنا۔۔۔۔ میں مر گئی اور وہ بچ گیا تو خیر ہے، لیکن اگر اسے کچھ ہوا اور میں زندہ رہ گئی تو۔۔۔۔۔ تو کوئی زندہ نہیں رہے گا "
اسکے تایا زاد بھائی نے بپھرے ہوۓ انداز میں اس پہ ہاتھ اٹھانا چاہا تھا۔ وہ اس کے لئیے تیار تھی۔ اس نے اسکا ہاتھ ہوا میں ہی پکڑ لیا تھا۔
" یہ غلطی نا کرنا۔۔۔۔ مجھے اسماء نا سمجھنا۔۔۔۔ یہ بھول، بھول کے بھی نا کرنا۔۔۔۔ "
وہ اسکی انکھوں میں آنکھیں ڈال کر غرا رہی تھی
" جو کچھ تم سب نے میری ماں کے ساتھ کیا ہے، وہ ہوچکا۔۔۔ میرے بارے میں سوچنا بھی مت۔۔۔۔ میں اسکی طرح چپ چاپ مر نہیں جاؤں گی۔۔۔۔۔ "
وہ کہہ کر پلٹنے کو تھی پھر رکی
" اور آج جو کچھ تم نے بلال کے ساتھ کیا ہے، اسکے بدلے میں دینے کو میرے پاس بھی ایک تحفہ ہے۔ تھانے کچہری کا ایک چکر میری طرف سے۔۔۔۔۔۔ "
وہ اسے دیکھ کر رہ گۓ تھے۔
چیونٹی کے پر یوں نکل آئیں گے، یہ انہوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسے دیکھ کر ہنسا تو ماتھے کی چوٹ دُکھنے لگی تھی۔ اسکے چہرے پہ پھیلی درد کی وہ لہر فاطمہ نے پڑھ لی تھی۔ وہ کرب سے اسکے وجود پہ وہ زخم اور نیلوں کے نشان دیکھتی رہی تھی۔
" اذیت مصیبت ملامت بلائیں
تیرے عشق میں ہم نے کیا کیا نا دیکھا "
اس نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
" یہ یہاں فٹ نہیں آتا سرجن صاحب "
وہ کندھے اچکا گیا
" نہیں تو نا سہی۔۔۔۔۔ "
وہ بہت دیر تک اسے دیکھتی رہی تھی
" میں انہیں چھوڑوں گی نہیں بلال۔۔۔۔ ہرگز نہیں "
" یار۔۔۔۔۔۔ "
اس نے ہاتھ سے اسے پاس آنے کا اشارہ کیا تھا۔ وہ نزدیک جا بیٹھی تو بلال نے ہولے سے اسکا ہاتھ پکڑا تھا۔
" میں ٹھیک ہوں ناں۔ یہ مقدر میں تھا، ہو گیا۔۔۔ اب جانے دو۔۔۔۔ "
" جانے دوں ؟؟؟؟؟؟ "
اس نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا
" جانے دوں ؟؟؟ یہ آپ کہہ رہے ہو ؟؟؟؟ آپکو کچھ ہو جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "
وہ بات پوری نہیں کر سکی تھی۔
" آپکی جگہ میں ہوتی اور ان کی جگہ آپکے گھر کے لوگ تو آپ جانے دیتے ؟؟؟؟؟ "
وہ لاجواب ہوگیا تھا۔
" آپکو پتہ بھی ہے انہوں نے میری ماں کے ساتھ کیا کیا تھا ؟؟؟؟؟؟ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت قیوم کھوسہ کی میٹھی زبان تھی۔ اسکے لہجے میں گھلی سرائیکی کی شیرنی تھی۔ اسکا اپنی مٹی سے تعلق تھا۔
اور محبت اسما شیرازی تھی۔ اسکے لہجے میں بولتی میٹھی اردو تھی۔ اسکا شاعروں جیسا گھرانہ تھا۔۔۔
وہ تعلق جو محبت تھا، اور محبت تھا۔
وہ محبت جو ہر شے سے اونچی ہے۔۔۔
ذات۔۔۔ رنگ۔۔۔ نسل۔۔۔۔ خاندان۔۔۔۔ زبان۔۔۔۔
ہر شے سے اونچی۔۔۔
سب سے اوپر۔۔۔۔۔
اس نے اپنا آپ منوا لیا تھا۔
وہ سرجن اسے اپنا دل بے بیٹھی تو اس نے شکریہ کہہ کر قبول کیا تھا۔ وہ ایسا خوش قسمت کہ اسے چنا گیا تھا۔ اسکے تو پاؤں زمین پہ نہیں ٹِکتے تھے۔ وہ ساتویں آسمان پہ نہیں تو چوتھے پانچویں پہ تو ضرور تھا۔
اور اسے زمین پہ لایا باپ کا تھپڑ۔۔۔۔ ماں کی گالی۔۔۔۔
" بے حیا۔۔۔ تیڈھی منگ ہے یہاں۔۔۔ وہ۔۔۔۔ وہ حرافہ۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ شرم کر قیوم شرم کر۔۔۔۔ "
وہ کیوں شرم کرتا۔۔۔۔ جرم تھوڑی نا کیا تھا۔
" پریت نا دیکھے جات کجات۔۔۔۔ "
اسے ایک ایک نے سمجھایا پر وہ نا مانا۔۔۔۔ اس سے شادی کر ہی لی۔۔۔۔ وہ ضدی تو یہ بھی ضدی۔۔۔۔
ایسے تو ایسے ہی سہی۔۔۔۔۔
شادی کے بعد دنیا ہی جنت بن گئی تھی۔ وہ دو محب جو محبوب بھی تھے۔ کچھ سالوں میں تین ہوگۓ۔۔۔
" میڈی فاطمہ۔۔۔۔۔ "
وہ پانچ سال کی تھی جب اس نے پہلی بار دادی کو دیکھا۔ دادا کو دیکھا۔ وہ تو اسے دیکھ بھی نہیں رہے تھے۔ وہ تو بس اپنے بیٹے کو دیکھ رہے تھے۔
" چل قیوم۔۔۔ غصہ چھوڑ۔۔۔ تو نے بھی تو اپنے من کی کر لی۔۔۔ چک میرا پوترا چل گھر۔۔۔۔ "
ماں باپ بار بار منانے کو آئیں تو کوئی روٹھا رہے گا ؟؟؟؟
وہ بھی بیوی بچی کو لیکر چلے آۓ۔۔۔
اسما کا ہسپتال چھڑوا دیا گیا۔ اسکا عشق سرجری۔۔۔ اس نے اپنی محبت چن لی۔۔۔ وہ ہاتھ سرجری بھول گۓ۔۔۔ وہ ناپسندیدہ تھی، وہی رہی۔۔۔ وہاں گھٹن تھی، سہتی رہی۔۔۔ قیوم کو بہت ساری باتیں پتہ ہی نہیں چلتی تھی۔ ساس کی گالیاں، طعنے، ادھر ادھر کی باتیں۔۔۔ وہ سب پی جاتی تھی۔ چلو کوئی نہیں میرے بھی تو ماں باپ ہیں۔۔۔۔
پر مظلوم بننا ہی اسکا جرم بن گیا تھا۔۔۔۔
اس دن قیوم گھر لوٹا تو وہ نیلوں نیل تھی۔ زخم ہی زخم۔۔۔ مار پیٹ کی گئی تھی۔ بکھرے بال۔۔۔۔
وہ ساکت رہ گیا
" کنجری کو پکڑا ہے میں نے۔۔۔ ادھر پچھلے باغ میں۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔ اس حرامزادے پٹواری کے شوہدے کے ساتھ۔۔۔۔۔ "
وہ رو رو کر اپنی بے گناہی بتاتی رہی۔
گواہ پہ گواہ کھڑے تھے۔ قرآن پاک پہ حلف دئیے گۓ۔ پٹواری کا لڑکا بھی سر جھکاۓ اعترافِ جرم کرتا چلا گیا۔۔۔
" بہک گیا تھا جی۔۔۔ معاف کردو۔۔۔۔ گناہ ہوگیا۔۔۔۔ معافی سرکار۔۔۔ میکوں معاف۔۔۔۔ "
اب اس پہ عقدہ کھلا کہ سختی سے اپنی ذات اور خاندان پہ اڑے وہ دو میاں بیوی کیسے اسکے لئیے مان گۓ تھے۔ وہ بے یقینی سے سب دیکھتا رہ گیا۔ اسے اپنے ماں باپ اجنبی دکھائی دے رہے تھے۔
وہ جرگہ۔۔۔ وہ منصفی۔۔۔۔ وہ فیصلہ۔۔۔۔
" وہ بے گناہ ہے جی۔۔۔ پٹواری کے منڈے کو پیسے دئیے گۓ ہیں۔۔۔ انہیں بچالیں۔۔۔ وہ انہیں مار دیں گے۔۔۔۔ "
وہ ڈری سہمی ملازمہ۔۔۔۔
وہ شہر میں تھی تو محفوظ تھی۔ وہاں وہ اسکی حفاظت میں تھی۔ یہاں تو جنگل تھا اور جنگل کا قانون۔ جرگہ قرآن حدیث کا سا معتبر تھا ان کے لئیے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" وہ درخت سے بندھی ہوئی تھیں بلال۔۔۔۔ برہنہ۔۔۔۔ تن پہ کچھ چیتھڑے۔۔۔۔ روتی چلاتی وہ میرے باپ کی منتیں کر رہی تھیں اور وہ سر جھکاۓ کھڑے تھے۔۔۔ وہ بہت کچھ کر سکتے تھے۔۔۔ وہ کیا کر سکتے تھے ؟؟؟؟؟ وہ بس رو سکتے تھے، چیخ چلا سکتے تھے، ایک ایک سے لڑ سکتے تھے اور منتیں کر سکتے تھے۔۔۔۔ "
وہ بے آواز رو رہی تھی۔
" ایک ایک پتھر پہ انکی چیخ سارے میں گونجتی تھی۔ وہ سنگساری مجھے آج بھی یاد ہے بلال۔ انکی چیخیں۔۔۔ وہ زخم۔۔۔ خون۔۔۔ وہ آوازیں۔۔۔ وہ سب۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ "
اس نے کرب سے آنکھیں موند لی تھیں۔
" وہ آدمی۔۔۔۔ پٹواری کا بیٹا۔۔۔۔ اسکا کیا ہوا ؟؟؟؟ "
" اسے میں نے بہت بار دیکھا۔ بہت سے لوگوں نے دیکھا حالانکہ سارے گاؤں میں مشہور تھا کہ دادا جی نے اسے گولیاں مار دی تھیں اور لاش کتوں کو کھلا دی تھی۔۔۔ "
وہ بے بس سا اسے دیکھ رہا تھا
" تم اس لئیے سرجن بنی ہو ؟؟؟؟؟ "
" میں پتہ نہیں کیوں یہ بنی۔۔۔۔ جب میں بھی بس ایک کمزور اور بے بس سی عورت ہو۔۔۔۔ اس معاشرے میں جہاں میرے باپ جیسے مرد بے بس ہیں تو میں کیا شے ہوں۔۔۔۔۔ "
بہت سارے لمحے خاموشی سے گزر گۓ تھے۔
بلال کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کن الفاظ میں اسکے زخموں پہ مرحم رکھے۔ کیا واقعی اسکے درد کا کوئی تدارک تھا۔
" پسند کی شادی اتنا بڑا گناہ ہے کیا ؟؟؟؟ پھر پسند کے کپڑے پہننا، پسند کا کھانا کھانا، اپنی پسند کاپڑھنا، یہ سب بھی جرائم میں شامل ہونا چاہئیے۔۔۔۔ "
اسکا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔ بلال نے آہستگی سے اسکے رخسار صاف کئیے تھے
" مجھے بس ایک بات پتہ ہے فاطمہ۔ زخموں کو جتنا کریدو، وہ اتنا پھیلتے جاتے ہیں، جتنا نوچتے رہو، اتنی تکلیف ملتی جاتی ہے۔۔۔۔ ہمارے ساتھ کچھ بہت برا ہوا تھا، یہ بھولنے کی کوشش کریں گے تو بھول سکیں گے "
وہ رسان سے کہہ رہا تھا۔
" جنگیں لڑنے سے سکون ملتا تو دنیا امن امن نا الاپ رہی ہوتی۔۔۔۔ بدلہ لینے سے سکون نہیں ملتا فاطمہ۔۔۔۔ درگزر کردو۔۔۔۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہار مان لو لیکن۔۔۔۔ تم ان سے جیت نہیں سکو گی "
" تو ظالم کو اسکے بڑا ہونے کا سوچ کر آزاد چھوڑ دیا جاۓ ؟؟؟؟؟؟ "
" نہیں۔۔۔۔۔ خود کو ظالم ہونے سے بچایا جاۓ۔۔۔۔۔ انہیں کرنے دو جو وہ کرتے ہیں۔۔۔ تم وہ سب نا کرو جو وہ تم سے کروانا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔ "
اسی شام قیوم صاحب نے اسے کہا تھا
" تم پرچہ کٹوانا چاہو، مقدمے لڑنا چاہو تو تمہاری مرضی ہے۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ لیکن بچے، مجھ سے مشورہ مانگتی ہو تو میں کہوں گا جانے دو۔۔۔۔ "
وہ ان پہ لعنت بھیج کر پیچھے ہٹ گئی تھی۔
انکی ازدواجی زندگی میں آنیوالا وہ پہلا طوفان اپنا آپ دِکھا کر اب خاموش ہوگیا تھا۔ وقت ہر زخم کا مرحم ہوتا ہے۔۔۔۔ اگلے بہت سارے دن اسکے گھاؤ بھی بھر گۓ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے فاطمہ کا نام اسسٹنٹ کے لئیے لکھا تو انصاری صاحب نے پہلو بدلا
" کوئی تمہارے سامنے نہیں کہتا تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کچھ کہتا نہیں ہے۔۔۔۔۔ "
انہوں نے اسے بغور دیکھا
" ایک بار۔۔۔ دو بار۔۔۔۔ چار بار۔۔۔۔ ہر دفعہ وہی تمہیں اسسٹ کرے گی تو تمہارے ہی کولیگ اعتراض کریں گے۔ وہ کہیں گے کہ تم اسے فیور دے رہے ہو "
بلال آگے کو ہوا
" میں اسے فیور دے رہا ہوں سر۔۔۔ کوئی تو کیا کہے گا، میں خود کہہ رہا ہوں "
وہ اسے دیکھ کر رہ گۓ
" اور کیوں نا دوں اسے فیور ؟؟؟ وہ بیوی ہے میری۔۔۔ میری ہر شے کے ساتھ ساتھ میرے نالج اور سکِل پہ بھی اسکا پہلے حق ہے۔ اسکا حق ہے کہ پہلے اسے سکھایا جاۓ۔۔۔۔ "
" یہ ہسپتال ہے بلال، گھر نہیں ہے "
" میرے لئیے گھر ہی ہے "
اس نے کندھے اچکاۓ
" میرے ساتھ ہر سرجری میں وہ اسسٹنٹ ہوگی۔ اور چاہے کسی کو بھی کھڑا کر دیں لیکن اسے مت ہٹائیں۔ وہ میری ٹیبل پہ نہیں ہوگی تو میں بھی نہیں ہوں گا "
اس نے دو ٹوک لہجے میں کہا تھا۔
" فاطمہ قیوم اب میری بیوی ہے اور مجھ سے جہاں تک ممکن ہوا میں اسے فیور دوں گا۔۔۔۔ بس میری بات اتنی سی ہے۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے دل میں تو وہ بہت پہلے اپنی جگہ بنا چکی تھی، اب ہولے ہولے اسکی زندگی میں حلول کرتی جا رہی تھی۔ بلال ظفر کی زندگی کی ہر شے میں وہ شامل ہوتی جا رہی تھی۔
اسکے ہاتھ کی پکائی روٹی کا ذائقہ ہر ذائقے پہ حاوی ہوچکا تھا۔ اسکی بھوک ہی اسکے کھلاۓ نوالوں سے مٹتی تھی۔ کوئی بھی کھانا اس ذائقے کی برابری کا نہیں تھا۔
وہ سارا گھر اسکی خوشبو سے مہکا رہتا تھا۔ اسکا احساس وہاں ایک بے نام سی مٹھاس بنا ہوا میں گھلا رہتا تھا۔
زندگی تو فاطمہ قیوم کی بھی بدل چکی تھی۔
وہ اس سے اس جتنی محبت بیشک نا کرتی ہو، اسکے لئیے عادت وہ پختہ ہوتا جا رہا تھا۔۔۔
اس دن عینی بہت دن بعد ملنے آئ تو گلہ کرنے لگی
" تم تو میاں کے علاوہ سب کو ہی بھول گئی ہو بے وفا لڑکی۔۔۔۔ اتنے دن ہوگۓ اور ایک فون تک نہیں کیا "
" بس یار۔۔۔۔ سارا دن مصروف گزرتا ہے "
وہ ہنسی
" ہاں بھئی۔۔۔ میاں کے کپڑے، جوتے، کھانا سب کرتی ہو گی۔۔۔۔ انکے مزے ہوتے ہیں شوہروں کے۔ بیوی تو ملتی ہی ہے، ساتھ ملازمہ ایکسٹرا۔۔۔۔ "
اس نے نفی میں سر ہلادیا
" میں کسی کی ملازمہ نہیں ہوں "
وہ اسکے لئیے چاۓ لیکر وہیں بیٹھ گئی
" اپنے لئیے ایک روٹی پکاؤں گی تو ایک اسکے لئیے بھی بنا دوں گی۔ دو جوڑے اپنے دھوؤں گی تو دو اسکے بھی سہی۔ اتنے میں ملازمہ ہو جاتی ہوں میں ؟؟؟؟؟ "
وہ چپ رہ گئی
" یہ کوئی فرض نہیں ہے، کوئی ذمہ داری نہیں ہے، کسی کا کسی پہ احسان بھی نہیں ہے۔ یہ بس ایک احساس ہے۔ وہ کچھ میرے لئیے کرتا ہے تو کچھ مجھے بھی کرنا چاہئیے۔ گھر، چھت، تحفظ، کھانا کپڑا یہ ایک اکیلی عورت کر سکتی ہے عینی۔ یہ کھانا پکانا، برتن کپڑے، مرد کے لئیے کرنا مشکل نہیں ہیں۔ پھر کیوں کرتے ہیں شادی ؟؟؟؟ ایک ملازمہ شوہر کو سستی نہیں پڑتی ؟؟؟؟؟ "
اس نے دل پہ ہاتھ رکھا تھا
" یہ کچھ یہاں ہے۔ یہ تعلق، خواہش اور ضرورت سے کچھ زیادہ کا تعلق ہے میری جان۔ یہ ہے شادی۔ بس۔۔۔۔ کوئی سمجھے تو۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" شادی ؟؟؟؟ "
وہ اسکی بات سن کر ششدر رہ گئی تھیں۔
" تت۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیسے۔۔۔۔۔۔۔ بلال ؟؟؟؟؟ "
وہ انہیں دیکھ کر رہ گیا
" میں نے آپ سے اپنی پسند کا اظہار کیا تھا والدہ۔ میں نے اجازت مانگی تھی۔ میں نے آپکو منانے کی بھی کوشش کی تھی "
" میں نے اجازت دیدی تھی ؟؟؟؟ "
وہ زرا کی زرا چپ رہا
" میں اسکے بغیر نہیں رہ سکتا تھا والدہ "
" لعنت تیرے جیسے مردوں پہ جو چار دن کی محبت کے لئیے مائیں قربان کر دیتے ہیں "
" میں نے کسی کو کسی کے لئیے قربان نہیں کیا والدہ "
اس نے رسان سے انکے پیر پہ ہاتھ رکھنا چاہا لیکن انہوں نے جلدی سے سمیٹ لئیے تھے
" اب کیا کرنے آیا ہے یہاں ؟؟؟؟ یہ کوئی بہت بڑا معرکہ تھا جو مار کے آیا ہے جشن منانے ؟؟؟؟؟ "
" آپکو منانے آیا ہوں "
" بھاڑ میں گیا تو اور تیرا منانا۔۔۔۔ دفع ہو جا ادھر سے۔۔۔ "
وہ درشتی سے بولی تھیں
" جو ایک لڑکی کے لئیے ماں کو دیوار سے لگا دے، وہ میرا بیٹا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ "
" والدہ۔۔۔۔۔۔ ایسے نا کریں۔۔۔۔ آپ کے حق اپ کے ہیں، اسکے اسکے ہیں۔ یہاں موازنہ بنتا ہے کیا ؟؟؟؟ اپکی جگہ کوئی لے سکتا ہے کیا ؟؟؟؟؟ "
" اس نے لے تو لی ہے بلال۔۔۔۔ ہم سب کی جگہ لے لی ہے۔۔"
" اس نے کسی کی جگہ نہیں لی ہے۔ بس اپنی جگہ بنائی ہے۔۔۔۔۔ "
وہ پھر سے تپ گئیں
" دفع ہو جا۔۔۔۔ شکل گم کر لے اپنی۔۔۔۔ چلا جا۔۔۔۔ "
اسے پتہ تھا یہی ہوگا۔ وہ جانتا تھا۔ اسے ایک فیصد بھی امید ہوتی کہ وہ کبھی اس رشتے کے لئیے مان جائیں گی تو وہ فاطمہ سے نکاح کے لئیے اس دن تک کا انتظار کرتا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسکا ہر کام اپنے ہاتھ میں لے چکی تھی۔
اسکے ناں ناں کرنے کے باوجود۔۔۔۔
اسکا کھانا پینا۔۔۔ کپڑے جوتے۔۔۔۔ ہر شے۔۔۔۔ اور وہ خوبصورت تھا۔ یقین مانئیے۔۔۔۔
جب اسے بوجھ سمجھ کر نہیں، فرض سمجھ کر نہیں، ڈیوٹی سمجھ کر نہیں، بس اس لئیے کیا جاۓ کہ وہ سب خوشی دے تو وہ سب خوشی دیتا ہے۔۔۔۔
کسی انسان کو خریدنا مشکل نہیں ہے۔ وہ اسے خرید تو چکی تھی۔
بدلے میں وہ اسکے کام اپنے زمہ لیتے چلا گیا تھا۔ اس کے بنا کہے، بنا سوال کئیے۔۔۔۔
وہ اسے خریدنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اسے اسکا رہنے دینا چاہتا تھا۔ ہاں پر خود بس اسی کا رہنا چاہتا تھا۔
اور یہی محبت تھی۔
یہی محبت ہوتی ہے۔۔۔۔۔
کسی کی مرضی سے، بس اسکی مرضی سے۔۔۔
اب سنو پیاری لڑکیو۔۔۔۔۔
وہ محبت نہیں ہوتی جسے اب تم صبح شام یہاں وہاں پڑھتی ہو۔ کسی روڈ ہیرو کا تھپڑ مارنا اور ہیروئن کا بس اسے چاہتے رہنا۔۔۔۔ ایسے نہیں ہوتا۔۔۔ حقیقت میں دل چاہتا ہے اس انسان کے منہ پہ تھوک دیا جاۓ کجا یہ کہ اسے چوم لیا جاۓ۔۔۔۔
وہ ہیرو نہیں ہوتا جو کسی کو رولا کر، کسی کو زبردستی اپنا کر لے۔ وہ تعلق بھلے نکاح ہی کیوں نا ہو، وہ خیر نہیں ہوتا۔۔۔۔حقیقت میں ایسے تعلق سے گِھن آتی ہے۔۔۔۔۔ میں مان ہی نہیں سکتا کہ کوئی ایسا انسان جس نے ہمیں گالی دی ہو، یا دھتکارا ہو، یا ہاتھ اٹھایا ہو کل کو ہماری محبت بن جاۓ۔۔۔ وہ دلدار بن جاۓ۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ عزت نفس محبت سے اوپر ہے۔۔۔ یہ ہیرو ہیروئن سے بھی اوپر ہے۔۔۔۔
سب سے اوپر۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" یہ پیسے ابھی تک یہیں رُل پڑے ہیں۔ سنبھال لو یار "
اس نے کپڑے تہہ کرتے ہوۓ حیرت سے اسے دیکھا
" یہ آپکے نہیں ہیں ؟؟ مجھے لگا آپکے ہیں۔۔۔۔ "
اس نے نفی میں سر ہلادیا
" یہ تمہارے ہیں "
" میرے تو نہیں ہیں "
" ارے اللہ کی بندی اٹھا لو۔۔۔ کل سیلری آئی تھی تو نکلوا لئیے تھے۔ رکھ لو۔۔۔ "
" لیکن میں کیا کروں گی بلال۔۔۔۔ میرے پاس ہیں "
وہ ہنسا
" ہاں مجھے پتہ ہے اچھی خاصی امیر کبیر خاتون ہیں آپ۔ اسکے مقابلے میں تو یہ کچھ بھی نہیں لیکن۔۔۔ یہ حقیر سا نظرانہ قبول ہو۔۔۔۔ "
وہ اسے دیکھ کر رہ گئی
" کچھ بھی لے لینا۔۔۔۔ "
" مثلاً ؟؟؟؟ "
" یہ بھی اب میں بتاؤں۔۔۔۔ یار لڑکیاں تو لاکھوں لگا دیتی ہیں کپڑوں جوتوں پہ "
" وہ تو ابھی پچھلے ہفتے ہی دلواۓ ہیں آپ نے۔۔۔۔ بلال یہ آپکے پیسے ہیں، اسے اپ رکھیں "
اس نے منہ بنایا
" مجھے نہیں رکھنے۔ اور کیا کروں میں رکھ کر "
" سیونگ اکاؤنٹ میں ڈالیں۔ کل کو کام آئیں گے "
" اور آج ؟؟؟؟ اسکا کیا؟؟؟؟؟ "
وہ چپ رہ گئی
" ہم کل کا پہلے سوچنے لگتے ہیں۔ مستقبل۔۔۔ سیونگز۔۔۔ گھر۔۔۔ فلاں شے۔۔۔۔ کل کے چکر میں آج ترسا ترسا کر گزار دیتے ہیں۔ کیا فائدہ ؟؟؟؟ "
وہ زرا رکا
" میرے باپ کے اکاؤنٹ میں اےنا پیسہ تھا کہ شائد انہیں خود بھی پتہ نا ہوتا ہو لیکن میری ماں کا پرس خالی رہتا تھا۔ "
فاطمہ نے خاموشی سے وہ نوٹ پکڑ لئیے تھے۔
بخیل مرد عورت کے لئیے دنیا کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آپریشن تھیٹر میں موجود تھے۔
تھائیرائیڈیکٹومی ( گلہڑ کے علاج کا آپریشن ) کی پیشنٹ ٹیبل پہ تتھی۔ وہ جنرل اینستھیزیا کی وجہ سے بیہوشی میں تھا۔ وہ مہارت سے اپنا کام کر رہا تھا۔ اسکے عین سامنے ڈاکٹر سفیر اسسٹنٹ تھے اور اسکے برابر میں فاطمہ کھڑی تھی۔
" ایک پرولین کھلوا لو۔۔۔ "
" پرولین کھولیں۔۔۔۔ "
" زور سے بولو۔۔۔ ناشتہ نہیں کیا ؟؟؟؟ "
وہ جھینپ گئی تھی۔
وہ ابھی تھائی رائیڈ نکال کے سپونج سے خون صاف کر رہا تھا جب اس نے پیشنٹ کا پیٹ ہلتا محسوس کیا تھا۔
" ڈاکٹر اقبال۔۔۔ اماں واپس آرہی ہیں "
اس نے ہلتے پیٹ کی طرف اشارہ کیا تھا۔ انہوں نے اٹھ کر پروپوفول کا انجکشن بھرا تھا۔ کٹی گردن میں سے خون کا فوارہ باہر کو نکلا اور خر خر کی آوازیں آنے لگی تھیں۔
فاطمہ کانپ کر رہ گئی تھی۔
سامنے وائٹل دکھانے والی سکرین پہ ہارٹ ریٹ ( دل کی دھڑکن ) تیزی سے نیچے کی طرف جا رہی تھی۔
" سیکیور کریں۔۔۔ جلدی۔۔۔ "
وہ زور سے بولا تھا۔ وہ سسٹر اب انجکشن بھر رہی تھی۔ پیشنٹ ٹانگیں مارنے لگی تھی۔
بلال کا چہرے پہ دور تک خون کے چھینٹے تھے۔
فاطمہ کو اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی تھی۔
ہارٹ ریٹ تیزی سے نیچے کی طرف جا رہا تھا
" پینتالیس۔۔۔۔ انتالیںس۔۔۔ سینتیس۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
Post a Comment
Post a Comment