حبِ عنید ازقلم واحبہ فاطمہ سلسلہ وار ناول قسط نمبر 03
قلبِ مرتضیٰ گھر میں داخل ہوا تو ناصرہ بیگم کہیں جانے کو بلکل تیار کھڑی تھیں۔ مناہل اندر سے شال پریس کر کے لائی تھی اور اب ان کے کندھوں پر پھیلا رہی تھی۔
امی کہیں جا رہی ہیں آپ،،؟ مرتضیٰ نے پوچھا مگر ناصرہ بیگم نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔ اور رخ دوسری جانب موڑ لیا یوں جیسے سنا ہی نہیں۔
اور مرتضیٰ کو پھر پتنگے لگے تھے کہ وہ اس کی سگی ماں ہوتے ہوئے اس پرائی لڑکی کے لئے مرتضیٰ سے اتنے دنوں سے یوں ناراض تھیں۔
امی میں نے کچھ پوچھا ہے آپ سے،، اب کی بار اس نے ناصرہ بیگم کے بلکل سامنے آ کر پوچھا تھا۔
تمھارے ابو کے جاننے والوں کے ہاں فوتگی ہو گئی ہے ادھر جا رہی ہوں،، انھوں نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
چلیں میں آپ کو بائیک پر چھوڑ آتا ہوں نہیں تو معمولی سا چلنے پر پھر آپ کی ٹانگوں میں درد ہوگا،، وہ بول کر بائیک کی جانب مڑا۔
نہیں میں چلی جاؤں گی تم جاؤ جہاں سے آئے ہو وہیں جاؤ،، ہماری وجہ سے تمھارے کسی اہم کام میں خلل پیدا نا ہو یا کافی بزی ہوتے ہو تو میں کیوں ڈسٹرب کروں تمھیں،،
ناصرہ بیگم نے درشتگی سے کہا تھا۔ کافی عرصے سے انھیں اس کی ازکی نامی سرگرمیوں کی شکایات موصول ہو رہی تھیں۔
وہ خود کون سا کم عقل تھیں یا بال دھوپ میں سفید کیے تھے۔ بیٹے کے رنگ ڈھنگ سے ہی جانتی تھیں کہ ضرور وہ کسی اور ہواؤں میں ہے۔ پھر انھیں بدنام زمانہ اس ازکی کے بارے میں علم ہوا کہ ان کے بیٹے کی وہ دھوکہ باز مکار لڑکی پسند ہے جس نے مرتضیٰ کی آنکھوں پر اپنی جھوٹی محبت اور دھوکے کی پٹی باندھ رکھی ہے تو ناصرہ بیگم کو بہت صدمہ ہوا۔
مگر کرتیں بھی کیا کہ ان کا بیٹا عمر کے اس دور سے گزر رہا تھا جب انسان خود کو ہی عقلِ کُل کا مختار سمجھتا ہے۔ اسی لئے اسے سمجھانا فضول تھا۔۔ الٹا اگر وہ انھیں سمجھاتیں بھی تو وہ ان کی بات کا یہ مطلب نکالتا کہ وہ مناہل کی وجہ سے ایسا کر رہیں ہیں اور ان سے مزید باغی ہو اور بدگمان ہوجاتا ۔ مگر وہ اب کسی نتیجے پر پہنچ چکی تھیں۔
امی یہ کیا بات ہوئی،، او پلیز خدا کے لئے چلیں،، وہ پہلے زچ ہوا مگر پھر ان کا بازو پکڑ کر نرمی سے انھیں بائیک تک لایا۔ بائیک سٹارٹ کر کے انھیں بیٹھنے دیا۔ جب وہ بیٹھ گئیں تو بائیک سٹارٹ کی۔ بائیک سڑک پر نکلی تو قلبِ مرتضیٰ نے انھیں مخاطب کیا تھا۔
امی کب تک ناراض رہنے کا پروگرام ہے آپ کا مجھ سے،، پلیز مان جائیں ناں،، اس کا لہجہ ملتجی تھا۔ مگر ناصرہ بیگم نے اس کی بات کو نظر انداز کیا تھا۔
"وہ جس لڑکی کو تم پسند کرتے ہو ،، ازکی نام ہی ہے ناں،، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس جمعے کو تمھارا اس سے نکاح کروں گی،، اسے آگاہ کر دینا،، سادگی پسند کرتی ہوں تو دھوم دھڑاکے کی ضرورت نہیں،، ویسے بھی لڑکی والوں کو کوئی تکلیف اور ان کا کوئی خرچہ ورچہ نا ہو جمعے کو نکاح کر کے سادگی سے رخصت کر لائیں گے،، کل کو مجھے لے جانا ان کے گھر تاکہ میں اس کے ماں باپ سے بات پکی کر لوں،،
ناصرہ بیگم کی باتوں پر اسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ کئی پل تو وہ بول تک نہیں سکا۔یہ بھی نا پوچھا کہ انھیں ازکی کے بارے میں کیسے معلوم ہوا۔
Post a Comment
Post a Comment