Online Urdu Novel Humsafar Ho To Aesa Ho by Kinza Rajpoot Social Romantic Urdu Novel in Pdf Complete Posted on Novel Bank.
سنا تم تمہارے عاشق نے میرےبھائی کو موت کے منہ میں پہنچا دیا یہ تم رو کیوں رہی ہو ہاں خوش ہوجاو جاکر اپنے اس عاشق کے ساتھ مل کر جشن مناؤ تمہارے راستے کا کانٹا نکل گیا ہے یہاں بیٹھ کر تماشہ کیوں کر رہی ہو دفعہ ہوجاؤں یہاں سے“مہمد کے الفاظ زہر کی طرح انا کے جسم میں اتر رہے تھے اس کے یوں چھوڑنے پر وہ منہ کے بل نیچھے گری مرتضٰی نے تڑپ کر انا کو اٹھایا ۔۔۔۔۔
یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا بھابھی ہیں یہ تمہاری“مرتظی نے انا کو گلے لگاتے ہوے کہا۔۔۔۔
میرا ان سے کوئی رشتہ نہیں ہے اس جیسی بدکردار لڑکی سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے جو اپنے یار کے ساتھ مل کر اپنے شوہر کو مروانے کا کھیل کھیل سکتی ہے وہ میری کچھ نہیں لگتی “مہمد نے کہا۔۔۔۔تو مرتضی انا کو چھوڑ اس کی طرف بڑھا مرتضی کے یوں جارحانہ طریقے سے مہمد کی طرف جاتا دیکھ شہزاد اس کے سامنے کھڑا ہوا۔۔۔۔۔
آرام سے مرتضی اور جاؤ یہاں سے“شہزاد نے اسے پیچھے کرتے کہا۔۔۔۔۔
مہمد پلیز غصہ مت کرو دیکھو۔۔۔۔۔۔بیلا کے الفاظ منہ میں رہ گئے جب مہمد نے بےدردی سے اس کا ہاتھ جٹھکا تو وہ بےیقینی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔
جاؤ یہاں سے اور جاتے جاتے اپنی فیملی کو بھی لے جانا“مہمد نے منہ موڑ کر نفرت سے کہا۔۔۔۔
مہمد میری کیا غلطی ہے؟بیلا نے بہت مشکل سے پوچھا۔۔۔۔
تمہاری غلطی یہ ہے کہ تم اس انسان کی بیٹی اور اس لڑکی کی بہن ہو اور ان دونوں کی وجہ کیوجہ سے میرا بھائی موت کے منہ میں ہے میرا تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے ہر اس انسان سے میرا تعلق نہیں جس کا تعلق ان دونوں سے ہے جس کا تعلق ان دونوں سے ہے وہ یہاں سے چلا جائے“مہمد کی بات بیلا کو توڑ گئی تھی اس نے پلٹ کر دیکھا وہ انا کو چھوڑ سکتی تھی مگر اپنے باپ کو(میں مہمد کے بنا رہ سکتی ہو مگر اپنے بابا نہیں میں اپنے بابا کے بنا نہیں رہ سکتی)جیا سے کہے الفاظ اس کی سماعت میں ٹکڑائے تھے وہ بت بنی وہی کھڑی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ اگر مہمد کی طرف گئی تو سانس کھو دےگی اور مصطفی صاحب کی طرف گئی تو زندگی موت تو دونوں طرف تھی اس طرف بھی اس طرف بھی کچھ دیر آنکھیں بند کرتی وہ مرے قدموں سے مصطفی صاحب کے پاس گئی آنکھوں سے آنسو نکلنا بند ہوگئے تھے مرتضی اسے دیکھ کر تڑپ گیا تھا آج دونوں بہنیں ہی اجڑی ہوئی لگ رہی تھی اس نے بیلا اور انا کا ہاتھ پکڑا اور باہر جانے لگا مصطفی صاحب خاموشی سے جہاں بیٹھے تھے وہی بیٹھے تھے مہمد کے لفاظ تیر کی طرح دل پر چھبے تھے مصطفی نے انہیں جانے کا کہا تو وہ اٹھ کھڑے ہوے ۔۔۔۔
مجھے نہیں جانا مجھے یہاں رہنا ہے محسن کے پاس مرتظی محسن کو میری ضرورت ہے وہ اٹھ کر میرا پوچھے گا دیکھنا اور اگر میں نہ ہوئی تو وہ ناراض ہوجائے گا نہیں مجھے یہی رہنا ہے اس کے پاس رہنا ہے تم جاؤ“انا اپنا ہاتھ چھڑواتی کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔۔
میرے بھائی کو آپ کی کوئی ضرورت نہیں ہے جائے یہاں سے “مہمد وہی کھڑا چلایا تھا عدیل نے اسے آہستہ بولنے کا کہا تو وہ خاموش ہوگیا۔۔۔۔
Post a Comment
Post a Comment