ناول جِند
تحریر زید ذوالفقار
قسط نمبر 04
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے جہانوں کے تخلیق کار کا کرم تھا کہ اس نے چاہا کہ انسان تخلیق کیا جاۓ۔ اس نے اپنے کُن سے انسانیت کی ابتداء کی۔ پھر اسکا رحم آیا۔ اسکے رحم کی انتہا کہ اس نے آدم کے لئیے حوا تخلیق کی اور انکے لئیے وہ مقدس رشتہ بنایا۔ اس نے آدم اور بنی آدم کو نکاح عطا کیا۔۔۔۔۔
اسکی نعمتوں میں سے ایک پاک نعمت۔۔۔
اسکی عطاؤں کا عروج وہ خوبصورت رشتہ۔۔۔۔۔
جب انسان نے نافرمان ہونے کی ٹھانی تو اس نے رب العزت کے اس فیصلے پہ بھی سر جھکانے کو انکار کردیا۔
" نہیں۔۔۔ کیوں۔۔۔ ایسا نہیں۔۔۔۔ "
وہ فساد کہ جو فرشتوں نے اسکی تخلیق پہ محسوس کیا تھا۔۔۔۔۔ کہ اس نے اپنے رب کا مان بھی توڑ دیا۔ اسکے اندر کا شر خیر کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔۔۔
اپنی ذات کے تکبر کا شکر۔۔۔۔ میں ہی میں کا شر۔۔۔۔ ذات پات اور زبان کا شر۔۔۔۔ بس میری مرضی کا شر۔۔۔۔
اسکا شر ہر خیر کی تاثیر بدلتا گیا۔۔۔۔
ہاۓ افسوس۔۔۔۔
دو انسانوں نے چاہت کی تمنا کی تھی، وہ چاہت معتبر نا ٹھہری۔ اس پہ انکار کی کالک مل کر قبر میں اتار دیا گیا۔ کوئی کسی کو چاہے تو اسکا رنگ نسل زبان دیکھ کر چاہے کہ ہم پلہ بس اپنے جیسے۔۔۔۔ ورنہ آخ تھو۔۔۔
آسمان والے ہمیں کہتے ہوں گے آخ تھو۔۔۔۔۔
میرا بیٹا کسی کو چاہتا ہے اور اسے اپنانا چاہتا ہے تو اسکے لئیے امتحان ہیں۔ بہت سارے۔۔۔ کوئی ایک کمی اور بس میری ناں۔۔۔ پھر ایک گرہ بندھ جاۓ گی دل میں کہ یہ تو اچھی لڑکی ہے ہی نہیں۔۔۔ میری بیٹی کی پسند تو ہے ہی نہیں۔۔۔۔ بالکل نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ شش۔۔۔۔۔
کوئی ایک انسان کسی سے محبت کا دعویدار ہے اور اس محبت کو ایک مقدس نام دینا چاہتا ہے تو اس پہ واویلا کیوں ؟؟؟؟ نیکیوں پہ واویلا کرتے ہیں ؟؟؟؟ کوئی نماز پڑھنے کو کھڑا ہوتا ہے تو اسے کہتے ہیں نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ پھر نکاح کی نیکی پہ سوال کیوں ؟؟؟؟ ٹھیک ہے اسکی چوائس اچھی نہیں ہوگی، اسکی محبت خالص نہیں ہوگی، نیتوں میں کھوٹ ہو سکتا ہے، اس تعلق میں شر ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔ لیکن کیا نکاح کا خیر اسے خیر نہیں بناۓ گا ؟؟؟؟؟ وہ سر جھکا کر کہا گیا " قبول ہے " کوئی معنی نہیں رکھتا ؟؟؟؟؟
چھوٹے غلطیاں کرتے ہیں تو اسی سے سیکھتے ہیں۔۔۔ بڑے غلطیاں نہیں کر سکتے ؟؟؟؟ انہیں تسلیم نہیں کر سکتے ؟؟؟؟ دل بڑا نہیں کر سکتے ؟؟؟؟؟؟
تو وہ خیر کی بات ہے۔۔۔۔
فاطمہ اندر کمرے میں بیٹھی تھی۔ اسکے پاس عینی تھی، اسکی خالہ اور دو اور خواتین۔
باہر بارات آ چکی تھی۔
" سفید سوٹ۔۔۔ سیاہ واسکٹ۔۔۔ یہ نک سک سے تیار۔۔۔ سرجن صاحب تو اخیر ہیں یار "
عینی نے باہر سے اندر آتے ہی کہا تھا۔ پھر اسے دیکھا
" نہیں۔۔۔ تمہاری بات تو پھر تمہاری ہے ناں۔ ارے کہاں وہ کہاں تم۔۔۔۔ ان جیسے تو ہزاروں قربان تم پہ میری پیاری ڈاکٹر صاحبہ !
وہ جھینپ گئی تھی۔
نکاح کے لئیے اسکے ساتھ کچھ کولیگ تھے۔ ڈاکٹر انصاری تھے۔ فاطمہ کی طرف سے ابو ولی تھے۔ انکے کچھ دوست گواہ تھے۔
ابو ہی نکاح کے لئیے کاغذات اندر لیکر آۓ تھے۔ وہ دھڑکتے دل کو بمشکل سنبھالے دستخط کرتی جارہی تھی اور وہ بھیگی نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ اس نے صفحات پلٹے تو انہوں نے اسے ساتھ لگایا
" میری دھی رانی آباد رہے۔۔۔ شالا خوش رہے۔۔۔ میں تیکوں خیر دے چھوڑی ہے فاطمہ۔ اس کو سانبھ کے رکھیں۔ "
باہر مولانا صاحب دعا کروا رہے تھے۔
وہ شائد بدنصیب تھا کہ اسکی ماں اسکے ساتھ نہیں تھی، اسکی خوشیوں میں خوش نہیں تھی۔۔۔ لیکن وہ ماں کونسا خوش قسمت تھی کہ اپنے بیٹے کے لئیے کی جانیوالی دعا پہ اسکا آمین نہیں تھا۔
میں تو یہ جانتا ہوں کہ محبت ہونا اور ملنا اس دنیا میں خوش بختی کی نشانی ہے۔ کوئی اس کو دریافت کرچکا تو اسے خوش تو ہو لینے دیں، اسکے ساتھ خوش تو ہوجائیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اولاد شتر بے مہار ہو جاۓ اور ماں باپ بے بس۔۔۔۔ میں بس یہ چاہتا ہوں کہ اپنی اپنی ذات کے دائرے اتنے وسیع کر لیں کہ کوئی اور اس میں داخل ہو تو تنگی محسوس نا ہو۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس سے چند قدم آگے جاۓ نماز پہ کھڑا تھا۔ وہ بہت دیر تک اسکے ٹخنوں سے اوپر لٹکتا پائنچہ دیکھتی رہی تھی۔
" تو یہ شخص میرا مقدر تھا۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ "
وہ سجدے میں جا چکا تھا۔
" جب جب خدا کا شکر کرنا، زندگی میں دی گئی اسکی نعمتوں پہ الحمدللہ کہنا تو اسکے لئیے بھی کہنا۔۔۔ خدا اسے تمہارے لئیے نافع اور پاکیزہ مرد بناۓ۔۔۔۔ "
وہ تشہد میں بیٹھا تھا اور وہ دعا کے لئیے ہاتھ اٹھاۓ خاموش بیٹھی، اپنے مہندی سے آراستہ ہاتھ دیکھ رہی تھی۔ اتنی ساری دعائیں تھیں کہ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ پہلے کونسی مانگے۔۔۔۔۔
اس نے سلام پھیر کر گردن موڑی اور اسے دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ وہ نظریں جھکا گئی اور وہ مسکرا دیا۔
" ہاۓ۔۔۔۔۔۔۔ "
وہ شکرانے کے نوافل سے فارغ ہوکر اٹھا تو وہ بیڈ پہ ٹانگیں لٹکاۓ، گود میں ہاتھ رکھے بیٹھی تھی۔
" تم کچھ کھاؤ گی ؟؟؟؟؟ "
" نہیں۔۔۔ تھینک یو۔۔۔ "
" مجھے تو بھوک لگی ہے۔۔۔۔ "
" میں کچھ بنادوں ؟؟؟؟؟ "
اس نے کانوں کو ہاتھ لگاۓ
" توبہ استغفار۔۔۔۔ تمہیں ملازمہ کے طور پہ تو بھرتی نہیں کیا فاطمہ۔۔۔۔۔ "
وہ چپ رہ گئی
" یہ پارٹنر شپ ہے میرے لئیے۔۔۔ ففٹی ففٹی۔۔۔ نا میں زیادہ معتبر اور نا تم مجھ سے کچھ کم۔۔۔ برابر کی حصے داری۔۔۔۔ "
" تو کبھی میں بھوکی ہوں گی تو آپ بنا دیجئیے گا "
وہ ہنس پڑا
" چلو ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن کم از کم آج نہیں۔۔۔ آج تمہارا حصہ یہ ہوگا کہ میرے ساتھ کھانے میں شریک ہو گی۔۔"
کچھ دیر بعد وہ کچن میں تھے۔ بلال فروزن فوڈ کے ٹن نکال رہا تھا اور وہ پاس کھڑی تھی۔ اس نے چھری اٹھا کر سبزی کی ٹوکری سرکانا چاہی لیکن اس نے آہستگی سے اسکا ہاتھ جھٹک دیا تھا۔
" میڈم۔۔۔۔ سکون کر لیں۔۔۔ میں کہہ دیتا کہ کمرے میں جاؤ لیکن یہ بھی نہیں کہہ سکتا۔۔۔۔ تم سے اتنی دیر اتنی دور بھی نہیں رہ سکتا اب۔۔۔۔ "
وہ جھینپ گئی تھی۔ وہ سارا وقت اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتا رہا تھا۔ وہ بھاپ اڑاتے پاستے کی ڈش ٹیبل پہ پہنچانے تک اس نے اسے کسی چیز کو بھی ہاتھ نہیں لگانے دیا تھا۔
" آئیے میم۔۔۔ "
اس نے اسکے لئیے کرسی گھسیٹی تھی اور اسکے بعد خود بیٹھا تھا۔
" میرے خاندان میں ناں عورت کو اہم چیز نہیں مانا جاتا ہے۔ بس ایک چیز مانا جاتا ہے۔ میں نے ساری زندگی اپنے باپ کو ماں سے بات کرتے، مسکراتے نہیں دیکھا فاطمہ۔ انہیں لگتا تھا چار بندوں کے سامنے اگر وہ بیوی سے نرمی سے بات کریں گے تو زن مرید بن جائیں گے۔ کسی کے سامنے عورت کے لئیے ہمدردی دکھائیں گے تو بہت چھوٹے ہو جائیں گے۔ "
وہ اسکے لئیے پاستا نکال رہا تھا۔
" ایسے نہیں ہوتا۔ میں مانتا ہوں مرد کے درجے عورت سے کچھ اوپر ہیں لیکن کب ؟؟؟ جب وہ ان درجوں تک رہ کر عورت کو اسکے درجوں پہ رکھتا ہے۔ جب وہ اپنے درجے پھلانگ کر آسمان ہونا چاہتا ہے اور عورت کو حکم دیتا ہے کہ وہ نیچے چلی جاۓ تو وہ پھر اس پہ برتر نہیں رہتا۔۔۔۔ جو مرد اپنی عورت سے محبت نہیں کر سکتا، کرتا ہے تو جتا نہیں سکتا، جتاتا ہے پر کر نہیں سکتا تو وہ مرد نہیں ہوتا فاطمہ۔۔۔۔۔ "
وہ خاموشی سے نوالے لے رہی تھی۔
" میرے اور تمہارے درجے برابر نا سہی فاطمہ، لیکن اس گھر میں، میں اور تم برابر ہیں۔ میری زندگی میں ،میں اور تم برابر ہیں۔ میں سو تب بنوں گا جب تمہارا پچاس مجھ میں شامل ہوگا۔ میرے بغیر تم ادھوری ہو تو میں بھی تو تمہاری وجہ سے کامل ہوں۔ تو بس میں یہی کہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ مجھے کامل کرنے کے لئیے شکریہ۔۔۔۔۔ "
وہ مسکرا کر کہتا جا رہا تھا۔
وہ عورت آسمانوں سی معتبر ہوگئی تھی۔
اور یہ جھوٹ ہے کہ عورت کو کوئی خوش نہیں رکھ سکتا۔۔۔ وہ مرد کے چار لفظوں سے دنیا کی سب سے خوش قسمت انسان بن جاتی ہے۔۔۔ بھلے وہ لفظ جھوٹے ہی کیوں نا ہوں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ مسجد سے لوٹا تو وہ سنگھار میز کے سامنے بیٹھی گیلے بالوں میں برش کر رہی تھی۔ اسکا عکس آئینے میں اپنے پیچھے دیکھا اور اسکی مسکراہٹ سنی۔ وہ اسکے پیچھے آ کھڑا ہوا اور جھک کر اسکے کندھے پہ ٹھوڑی رکھی اور اسے آئینے میں دیکھنے لگا
" یہ خواب ہے ناں ؟؟؟؟؟ "
" میں نے ساری زندگی میں اتنا خوبصورت خواب نہیں دیکھا "
" تو پھر یہ حقیقت ہے ؟؟؟؟ "
" وہ تو خوابوں سے بھی زیادہ وحشت زدہ ہوتی ہے "
" تو پھر یہ کیا ہے ؟؟؟؟ "
" زندگی !!!! "
وہ مسکرا دیا۔ ہولے سے اسکے کانوں میں موجود آویزے کو چھوا تھا
" وہ تو تم ہو۔۔۔۔۔ "
وہ سیدھا ہوا اور بیڈ کی سائیڈ ٹیبل تک آیا۔
" تمہیں کچھ دینا بھول گیا تھا میں رات۔۔۔۔۔ "
وہ خوبصورت سی بریسلٹ تھی۔
" ویسے تو تمہاری منہ دکھائی میں ہوں اور تمہارا حق مہر میری زندگی۔۔۔۔۔ لیکن چلو۔۔۔ "
اس نے وہ سنہری بریسلیٹ ڈبیہ سے نکالی اور وہیں اسکے پاس دو زانو ہوا۔ اسکا ہاتھ آہستگی سے پکڑا اور وہ اسکی کلائی میں پہنائی۔
" نہیں۔۔۔۔ ابھی بھی تمہاری کلائی زیادہ خوبصورت ہے "
" اور بریسلٹ ؟؟؟؟؟ "
" وہ قیمتی ہے۔۔۔۔۔ "
" ہاں لیکن ڈاکٹر بلال ظفر سے زیادہ نہیں۔۔۔۔ "
وہ دل پہ ہاتھ رکھ کر اسکے گھٹنے پہ سر رکھ کر جھکا ےھا۔
" میرا بچنا مشکل ہے اسکا مطلب۔۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولیمہ کے لئیے اس نے ڈنر کا انتظام کیا تھا۔
وہی گِنے چنے افراد۔۔۔ ہسپتال کے کولیگز۔۔۔۔ ادھر سے قیوم صاحب، اسکی کچھ دوستیں۔۔۔۔
عینی نے اسے حیرت سے دیکھا تھا
" تو ایک دن میں بدل گئی ؟؟؟ فاطمہ ؟؟؟ تو سچ میں وہی ہے ناں ؟؟؟؟؟ "
وہ ہنسی۔ اب وہ اسکی ہنسی کی کھنکھناہٹ پہ چونک اٹھی تھی۔
" شادی راس آرہی ہے تجھے "
" شادی سب کو ہی راس آتی ہے۔ یہ۔۔۔۔ ( اس نے کنپٹی پہ انگلی رکھی تھی ) یہ ٹکنے نہیں دیتا سب کو۔۔۔۔ اور لوگ۔۔۔۔ "
" سمجھدار بھی ہوگئی ہے۔۔۔ "
" میں ہمیشہ سے سمجھدار ہوں "
وہ اپنا گاؤن درست کرتی بولی تھی۔
" عینی ساری زندگی میں نے اپنے لئیے اپنے لوگوں سے پھٹکار ہی سنی ہے۔ دادی کی لعن طعن۔۔۔ تائ چاچیوں کی باتیں۔۔۔ گالیاں۔۔۔۔ ہمیشہ بری باتیں۔۔۔۔ کل اس نے پہلی بار۔۔۔ پہلی بار بس میری بات کی ہے اور مجھے ہی سب سے معتبر کہا ہے۔۔۔ انسان کی فطرت ہے ناں کہ کوئی ہمیں برا کہے تو ذہن جلدی سے مانتا نہیں ہے۔ لیکن کوئی ہمیں اچھا کہے تو فوراً یقین آنے لگتا ہے۔ تو ہاں۔۔۔۔ میں اسکی باتوں پہ ایمان لے آئ ہوں عینی۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ میں اچھی ہوں تو میں سب سے اچھی ہوں۔۔۔۔ "
وہ مسکرادی
" میں خوش ہوں تیرے لئیے فاطمہ۔۔۔۔۔ مجھے پتہ ہے تو نے کیا کچھ سہا ہے۔۔۔۔ "
" میں بھی اپنے لئیے خوش ہوں۔۔۔۔ بہت خوش۔۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" شاپنگ ؟؟؟؟ "
اس نے اثبات میں سر ہلایا
" لیکن کیوں بلال۔۔۔ میرے پاس ابھی اچھے کپڑے جوتے ہیں۔۔۔ ابو نے بنا کر دئیے تھے شادی کے لئیے بہت سارے۔۔۔۔۔ "
" اور میں نے ؟؟؟؟ میں نے تو کچھ نہیں بنایا تھا۔۔۔۔ لڑکے والوں کی طرف سے کچھ نہیں ہوتا ؟؟؟؟ "
" اسکی ضرورت نہیں ہے بلال "
" ضرورت ہے فاطمہ۔ میں نہیں چاہتا کہ تم کسی بھی شے کی محرومی میں رہو۔۔۔ یہ سب میری والدہ اور بہنوں کو کرنا تھا۔۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ تم یہ سب سوچو تو یہ سوچو کہ وہ اس شادی پہ راضی نہیں تھیں۔۔۔۔۔ "
وہ کچھ کہنے کو تھی جب بلال نے ہونٹوں پہ انگلی رکھی تھی۔
" بس۔۔۔۔۔ دس منٹ ہیں اور ہم نکل رہے ہیں "
اور اب وہ اس مال میں تھے۔
اس وقت بلال ظفر نے جانا کہ وہ لڑکی کیسی اپنی ذات کے اندر ہی مقید تھی۔ اتنے دنوں سے وہ اسکے ساتھ ٹھیک تھی۔ اعتماد بھی تھا۔ جواب بھی دیتی تھی۔ اور اب۔۔۔۔ باہر کی دنیا میں وہ واپس وہی پزل اور کنفیوز سی لڑکی بن چکی تھی۔
انٹرویو میں انگلیاں موڑتی۔۔۔۔ اٹک اٹک کر جواب دیتی ہوئی۔۔۔۔ اسکے پیچھے چلنے کی کوشش کرتی ہوئی۔۔۔۔ چھپنے کی کوشش کرتی ہوئی۔۔۔۔
اسے سچ میں دکھ اور تکلیف ہوئی تھی۔ وہ یہ سب دیکھ چکا تھا۔ وہ اس سب کا انجام دیکھ چکا تھا۔ اسکے اپنے خاندان میں، گھر میں ایسی ہی مخلوق پروان چڑھ رہی تھی۔ اپنی مرضی تیاگے، منہ سئیے ہوۓ، سر جھکاۓ ہوۓ، باہر والوں سے خائف۔۔۔۔ وہ انکے لئیے پریشان رہتا تھا تو اسکے لئیے کیوں نا ہوتا۔۔۔۔۔
بڑا ظلم کرتے ہیں ہم لڑکیوں پہ۔۔۔۔ بچیوں پہ۔۔۔۔ ان کے بچپن کو وقت سے پہلے ہانک کر ادھیڑ عمری تک لے آتے ہیں۔ انکی خوہشوں کو دبا دیتے ہیں، انکی مرضیوں پہ ناں کی مہریں لگا دیتے ہیں۔ بڑا ظلم کرتے ہیں۔۔۔۔۔
اس نے مظبوطی سے اسکا ہاتھ پکڑا اور اس کے برابر میں چلنے لگا۔ اعتماد کے ساتھ۔۔۔۔
" جو دل چاہے، وہ لو۔۔۔۔۔ جو تمہیں چاہئیے، وہ لے لو۔۔۔ جو اچھا لگے وہ۔۔۔۔ ہر شے۔۔۔۔ سارا مال۔۔۔۔ سب دنیا۔۔۔۔ "
کوئی کسی کے کہنے سے ساری دنیا لے نہیں لیتا لیکن کسی کا یہ کہہ دینا کہ ساری دنیا لے لو، اسے ساری دنیا کا مالک ضرور بنا دیا کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں رات کو کھانے کے بعد ٹہلنے کے لئیے نکلے تھے۔ وہ اسکا ہاتھ پکڑے اس خاموش اور قدرے سنسان سے سڑک پہ چہل قدمی کر رہا تھا۔ سٹریٹ لائٹس کی روشنیاں اندھیرے کو بڑی حد تک بے بس کئیے ہوۓ تھیں۔
" تمہیں پتہ ہے جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا ناں، میں تم سے تبھی امپریس ہوگیا تھا "
وہ ہنس پڑی
" مجھ سے امپریس ؟؟؟؟؟ "
" ہاں۔۔۔۔ سچ میں۔۔۔ جس ایریا سے تم ہو، جیسی تمہاری لُک تھی، تمہارا لہجہ، بات کرنا۔۔۔۔ اس سب کے باوجود تم وہاں تھیں اور آگے بھی جانے کو تیار تھیں، کوئی بھی دیکھتا تو امپریس ہی ہوتا۔۔۔۔ "
وہ چپ رہ گئی
" لیکن انصاری صاحب امپریس نہیں تھے۔ ہے ناں ؟؟؟ "
" وہ مطمئن ہیں فاطمہ۔ وہ تم سے خوش نا ہوتے تو تم وہاں نا ہوتیں۔۔۔۔ "
" ایک بات بتائیں گے ؟؟؟؟ "
" پوچھو "
" آپ نے ان سے سفارش کی تھی ناں میرے لئیے ؟؟؟ "
" ہاں "
وہ اسے دیکھ کر رہ گئی
" ہاں ؟؟؟؟؟ مطلب آپ میری سیڑھی ہیں ؟؟؟؟ "
اس نے نفی میں سر ہلادیا
" میں تمہارا نصیب تھا۔ میں وہاں نا ہوتا، تم اس جاب پہ نا آتیں، تو یہ سب کیسے ہوتا ؟؟؟؟؟ "
وہ زرا کی زرا چپ رہ گئی
" ہر منظر میں منفی پہلو دیکھو تو بہت سے مل جائیں گے لیکن فاطمہ۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کریں کیوں ؟؟؟؟؟ "
وہ اسکا ہاتھ پکڑے بہت دور تک نکل آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" تم لوگ کیوں آگۓ ہو ؟؟؟؟؟ "
ڈاکٹر انصاری نے انہیں ہسپتال میں دیکھ کر سوال کیا تھا۔ وہ جھینپ گئی اور وہ ہنس پڑا
" جاو چھٹی کرو۔۔۔ ہفتہ دو ہفتہ اور۔۔۔۔ "
" ہمیں بھگا کر راضی ہیں۔۔۔۔ "
" دیکھو بچے میں نہیں چاہتا کہ کسی کے کباب کی ہڈی بنوں "
وہ مسکرا دیا
" ہنی مون بھی نہیں ؟؟؟؟ "
" ہنی مون پہ ہی تو آۓ ہیں سر "
اس نے انہیں دیکھا تھا
" نشہ ٹوٹ رہا تھا سر۔۔۔۔ ایک آدھ سرجری دیدیں۔۔۔۔ "
" وہ تو مہران لے چکا۔۔۔۔ اپینڈیکٹمی ہے کرنا چاہو تو۔۔۔۔ "
اس نے منہ بنایا
" اب میری یہ اوقات ہوگئی ؟؟؟؟؟ "
" اس سے بات کرلو۔۔۔۔ "
" میری جوتی کرتی ہے "
" تو پھر اپینڈیکٹمی پہ ہی صبر شکر کرو۔۔۔۔ "
انہوں نے رسان سے کہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وارڈ میں ایک ایک بندے نے اسے مبارکباد دی تھی۔ خوشدلی سے ویلکم کیا تھا سواۓ مہران کے۔ وہ اس دن سٹاف روم میں باقی دو فیمیل کولیگز اور ایک سینئیر ڈاکٹر کے پاس بیٹھی تھی جب وہ اندر آیا۔ ایک سر سری نظر اس پہ ڈالی تھی۔ وہ بہت دیر تک کھڑا ان سے باتیں کرتا رہا تھا لیکن ایک بار بھی اسے مخاطب نہیں کیا تھا۔ وہ سارا وقت سر جھکاۓ بیٹھی رہی تھی۔ اسکے جانے کے بعد انہوں نے اس سے کیا تھا۔
" تم برا مت منانا فاطمہ۔۔۔۔ وہ ڈاکٹر بلال سے جڑے ہر انسان کے لئیے اتنا ہی روڈ ہے "
وہ چپ رہ گئی۔ ہتک کا احساس اسکے کان کی لو کو لال کر چکا تھا۔
" یہ کیوں ہے اتنی دشمنی ؟؟؟؟ "
اس دوسری لڑکی نے پوچھا تھا تو وہ کندھے اچکا کر رہ گئیں
" سنا ہے کالج میں تو بڑے پکے دوست تھے۔ ہاؤس جاب بھی ساتھ ہی کی۔ اور یہ دو ہی نہیں، تکون تھی ان کی۔ عروج مہر۔۔۔۔ مہران کی گرل فرینڈ کہہ لو جس سے بعد میں اس کی منگنی بھی ہوگئی تھی۔ پھر جانے کیا ہوا کہ یہ جانی دشمن ہوگۓ۔۔۔۔ "
وہ حیرت زدہ سی یہ ساری کہانی سن رہی تھی۔ یہ سب اسے پتہ نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" میں یہ نہیں کروں گی "
اس نے صاف انکار کردیا تھا۔ بلال نے اسے بغور دیکھا
" کم آن یار۔۔۔ اس میں کونسی مشکل بات ہے ؟؟؟ "
اول تو وہ باہر کھانا کھانے پہ راضی نہیں تھی۔ اب اسکے بہت اصرار پہ وہ آئ تھی تو سرجن صاحب کی نئی فرمائش۔
" ویٹر کو خود بلاؤ گی، خود آڈر دو گی "
" یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔۔۔ "
" کمال ہے۔۔۔ اتنا عرصہ کو ایجوکیشن میں پڑھی ہو، گھر سے باہر رہی ہو، ہسپتال میں بھی رہی ہو اور اتنا کانفیڈنس بھی نہیں ہے "
" ہاں نہیں ہے "
" کیوں نہیں ہے ؟؟؟؟ "
وہ فوراً بولا تھا
" ہم یہاں بحث کرنے آۓ ہیں ؟؟؟؟؟ "
" نہیں۔۔۔ کھانا کھانے۔۔۔ اور مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے جلدی آڈر دو۔۔۔ "
وہ مرتا کیا نا کرتا کی مصداق ویٹر کو اشارہ کرنے لگی تھی
" I don't like women bold.... I want them to be strong "
وہ کھانے کے دوران اس سے کہہ رہا تھا۔
" سہارے مت ڈھونڈو۔۔۔۔ جو خود سے کر سکتے ہو وہ خود کرو۔۔۔۔ جو نہیں کر سکتے اسکی استطاعت مانگو۔۔۔۔ سہارے مت ڈھونڈو۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کھانے کے بعد گھر کے لئیے نکلے تھے جب اس قدرے سنسان سڑک پہ اس گاڑی نے انکا راستہ روک لیا تھا۔
وہ چار افراد تھے۔ منہ چھپاۓ۔۔۔۔
" قطعاً قطعاً گاڑی سے مت اترنا۔۔۔۔ "
بلال نے اسے کہا تھا۔ وہ کانپ کر رہ گئی تھی۔
" آپ بھی مت اتریں۔۔۔ "
" فاطمہ۔۔۔۔ میں کیا کہہ رہا ہوں۔۔۔۔ گاڑی سے مت اترنا۔۔۔ "
ان میں سے ایک آدمی نے گاڑی کا دروازہ کھولنے کو کہا تھا۔ وہ اسے اشارہ کر کے اتر گیا تھا۔
وہ اب بلال سے کچھ پوچھ رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے۔
فاطمہ کے پسینے چھوٹ گۓ تھے۔ وہ دہشت سے کانپ رہی تھی۔ بلال اسے سیٹ میں نیچے چھپ جانے کا کہہ گیا تھا۔ تبھی اس نے وہ آواز سنی۔
ہاتھا پائی، مار پیٹ شروع ہو چکی تھی۔
وہ چار تھے۔۔۔۔ مسلح تھے۔۔۔۔
وہ اکیلا تھا۔۔۔۔ بہادر تھا۔۔۔۔
چار کھائیں۔۔۔ ایک ماری۔۔۔۔ دو کھائیں۔۔۔ تین ماریں۔۔۔۔
فاطمہ کا سانس گھٹنے لگا تھا۔ یوں بس تماشہ دیکھنا تو بہت مشکل تھا۔ ایسے تماشہ وہ پہلے بھی دیکھ چکی تھی پر تب اسکے ہاتھ بندھے تھے۔ لیکن اب۔۔۔۔۔
اس نے جلدی سے ڈیش بورڈ پہ ہاتھ مارا۔ اسکا فون وہیں پڑا تھا۔ اس نے پھسلتے ہاتھوں سے پولیس کا نمبر ملایا تھا۔
وہ سات منٹ تک مار کھاتا رہا تھا۔۔۔ بچاؤ کرتا رہا تھا۔۔۔۔ زخمی وہ پانچوں تھے۔ زیادہ یا کم، تھے ضرور۔۔۔۔ جب تک پولیس کے سائرن سنائی دئیے، فاطمہ کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ پولیس کی جیپ دکھائی دیتے ہی وہ گاڑی سے اتری تھی۔ وہ تینوں افراد بھاگ کر گاڑی میں چڑھے تھے۔ اور وہ چوتھا آدمی۔۔۔۔
فاطمہ نے اسے پہچان لیا تھا۔۔۔۔
وہ اسکا تایا زاد تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
Post a Comment
Post a Comment