ناول جِند
تحریر زید ذوالفقار
قسط نمبر 06 ( سیکنڈ لاسٹ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیشنٹ کا ہارٹ ریٹ تیزی سے نیچے کی طرف جا رہا تھا۔ حلق میں سے خرر خرر کی آوازیں آرہی تھیں اور وہ ٹانگیں مار رہا تھا۔
" سپونج دیں۔۔۔ "
بلال نے کہا تھا۔ فاطمہ کو کچھ سنائی نہیں دیا تھا۔ اسکے ہاتھوں میں گویا رعشہ اتر آیا تھا۔
" ڈاکٹر فاطمہ سپونج دیں اور پرولین کھولیں "
اسکی ٹانگوں سے گویا جان نکل رہی تھی۔ بلاک نے ایک نظر اس پہ ڈالی اور ساتھ کھڑی سسٹر کو مخاطب کیا
" ڈاکٹر فاطمہ کو باہر لے جائیں اور آپ ادھر آئیں۔۔۔۔ فاطمہ۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔ "
اسے کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے اور کیا ہو رہا ہے۔ بلال تیزی سے اپنا کام کرنے میں لگا ہوا تھا۔ اینستھیزیا والے انجکشن دینے کے بعد وائٹل دیکھ رہے تھے۔
" ڈایا تھرمی۔۔۔۔ اب۔۔۔۔ "
اس نے بلڈ ویسلز کو لائگیٹ کرنا شروع کیا تھا۔ نالیوں کے کھلے حصوں کو پکڑ کر زرا سا کرنٹ دیتے اور سوراخ بند ہو جاتا۔ سسٹر عظمیٰ اسکے ساتھ کھڑی تھی۔ فاطمہ باہر جا چکی تھی۔
" ہارٹ ریٹ اوپر نہیں آ رہا "
پیشنٹ واپس بے ہوش ہو چکا تھا۔ بلال نے احتیاط سے وہ نالی ڈالی اور کنارے صاف کرنے لگا۔
" بلڈ منگوا لیں۔۔۔ "
قریباً تیس پینتیس منٹ بعد وہ اس مریضہ کی دل کی دھڑکن واپس معمول پہ لا چکے تھے۔ اس نے ماتھے سے بہتے پسینے کو کلائی سے رگڑا اور اسسٹنٹ ڈاکٹر کو دیکھا
" سٹچز تم لگا لو گے ؟؟؟ "
" جی سر۔۔۔۔ "
" چلو ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ "
وہ او ٹی سے نکلا، ماسک گلوز اور او ٹی ڈریس کھولا اور واش اپ ہونے چلا گیا
" ڈاکٹر فاطمہ کہاں ہیں ؟؟؟؟؟ "
" وہ باہر نکل گئی تھیں۔۔۔۔ "
وہ اسے وہیں نکل گئی تھی۔ او ٹی کے سامنے، کھڑکی کے پاس کھڑی ہوئی۔ اسکی امد کو محسوس کیا تو پلٹی اور اسکے سینے سے لگ کر رو پڑی۔
" بس۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔۔ بس۔۔۔۔ چپ کر جاؤ۔۔۔ "
اس نے اسکا سر سہلایا تھا۔
" بہادر بنو۔۔۔ یو آر اے سرجن۔۔۔ ایسے نہیں۔۔۔۔ "
وہ نرمی سے کہہ رہا تھا
" یہی تو ہمیں کرنا ہے۔ موت ہی تو ہماری اور ہمارے مریض کی دشمن ہے۔ اس آخری حد تک کوشش کہ وہ ہم سے اسے لے جا نا سکے۔۔۔۔ اور وہ جنگ ایسے ہی نہیں لڑی جاۓ گی۔۔۔ مریض تو ہاتھ پاؤں مار رہا ہوتا ہے، وہ ہم سے زیادہ بہادر ہوتا ہے۔ ہم کیوں بزدلی دکھائیں۔۔۔ ؟؟؟؟ ہنسنا رونا ڈرنا جو بھی ہے، وہ بعد میں ہے۔۔ وہاں اس وقت پہلے زندگی ہے۔۔۔ سب سے پہلے۔۔۔ سب سے اہم۔۔۔۔ سب سے قیمتی۔۔۔۔ "
وہ رسان سے کہتا جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بھی وہ کالز کر کر کے تھک گیا تھا لیکن ماں سے بات نہیں ہوئی تھی۔ بھائیوں نے کہہ دیا کہ وہ بات نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ گھر کے نمبر پہ بھی بہن نے انکا پیغام پہنچا دیا۔
اس نے اس کا حال چال پوچھ کے فون بند کردیا۔ وہ کمرے میں آیا تو فاطمہ کتاب لئیے بیٹھی تھی۔ اسے دیکھا تو اسکے چہرے پہ لکھی تحریر پڑھ گئی۔
" نہیں بات ہوئی ؟؟؟؟ "
" نہیں۔۔۔ "
اس نے نفی میں سر ہلادیا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر رہ گئی
" یہ سب میری وجہ سے ہے ناں ؟؟؟؟ میں ماں اور بیٹے لے بیچ میں آگئی ہوں "
وہ اسکے پاس آ بیٹھا
" نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ اسکی بہت ساری وجوہات ہیں۔ تم سے ہسند کی شادی تو تابوت کا آخری کیل ہے "
وہ زرا رکا
" وہ سب تو مجھ سے قطع تعلق کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے فاطمہ۔۔۔ "
" کیوں ؟؟؟؟ "
" بس۔۔۔ ایک باغی بچہ ہوں ناں میں۔۔۔۔ سب کی آنکھوں میں کھٹکتا ہوں۔۔۔۔ ماں تو چلو ماں ہے، بہت بار چپ کر جاتی ہے پر بھائی، بھابھیاں، چچا ، سب۔۔۔۔ "
وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
" ہمارے ہاں خاندان میں ہی شادی کی جاتی ہے۔ خاندان سے باہر نہیں چاہے اپنی ہی ذات کیوں نا ہو۔۔۔۔ میری چھوٹی بہن کی نسبت چچا زاد سے طے کردی گئی ہے فاطمہ۔ میں اس رشتے کے حق میں نہیں تھا۔ پہلے دن سے نہیں۔۔۔۔ دونوں کی عمروں میں بارہ سال کا فرق ہے۔ سمیع اللہ بمشکل پانچ جماعتیں پاس، وہی روایتی سوچ رکھنے والا مرد ہے۔ وہ میری بہن ڈیزرو نہیں کرتا۔۔۔ میری وہ بہن جسے میں نے اپنے سر چڑھ کے ایف ایس سی تک کروائی ہے "
وہ زرا رکا
" لیکن بس یہی وجوہات نہیں ہیں۔ ہمارے خاندان میں اب موروثی بیماریاں پیدا ہونا شروع ہو چکی ہیں۔ میری پھپھو کے دو بچوں کی شادیاں چچا کے ہاں ہوئی ہیں۔ بڑے بیٹے کا بڑا بیٹا ایبنارمل ہے۔ سمیع اللہ کی دو بہنیں ایبنارمل ہیں اور اسکے بڑے بھائی کے دو بچے بھی۔۔۔۔ یہ کلئیر کٹ خاندان میں شادیوں کا نتیجہ ہے۔ ہر ڈاکٹر یہی کہتا ہے کہ اب چین توڑ دینی چاہئیے۔ "
وہ خاموشی سے سن رہی تھی
" میں کزنز میرج کے خلاف نہیں ہوں فاطمہ۔ اپنے اپنے ہی ہوتے ہیں۔ جہاں جوڑ ہو، اچھا رشتہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن۔۔۔۔ یوں آنکھوں دیکھی ان دیکھی کیسے کروں ؟؟؟؟ یہ خدا کی قدرت ہے ناں۔۔۔ وہ چاہے تو یہ بھی کر سکتا ہے۔۔۔۔ اس نے سبب کرنے سے تو نہیں روکا ناں۔۔۔ اب اگر ایک مسئلہ ہے تو اسے تقدیر کے سر پہ ڈال کر، قسمت کہہ کر ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھے رہا جاۓ ؟؟؟؟؟ علاج گناہ تو نہیں ہوتا۔۔۔۔ اور ہمارے خاندان کے لئیے علاج خاندان سے باہر شادی ہے۔۔۔۔ لیکن ہماری سردار سرکار والدہ۔۔۔ وہ یہ کبھی بھی نہیں ہونے دیں گی۔۔۔۔۔ "
وہ افسردگی سے بولتا چلا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ وارڈ کے راؤنڈ کے بعد اپنے متعلقہ بیڈز کو چیک کر کے نکل رہی تھی جب میل وارڈ سے نکلتا مہران دکھائی دیا تھا۔ اسے دیکھ کر مسکرایا اور بشاشت سے اسکی طرف بڑھایا
" کیسی ہیں مس فاطمہ۔۔۔۔ بلکہ کہنا چاہئیے مسز فاطمہ۔۔۔۔ ؟؟؟؟ "
اس حیرت ہوئی۔ وہ تو جب سے انکی شادی ہوئی تھی اس سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا تھا کجا یہ کہ حال چال پوچھ رہا تھا۔
" میں ٹھیک ہوں سر "
" چودہویں کا چاند ہی ہوگئیں شادی کے بعد سے آپ۔ باۓ لک بھی اور ویسے بھی "
وہ جھینپ گئی تھی۔
" میں آپکی دعوت ضرور کرتا لیکن اگر اپکے شوہر سے مجھے نیکی کی توقع ہوتی تو۔۔۔۔ خیر۔۔۔۔ "
وہ اسکے ساتھ ساتھ چلتے ہوۓ سٹاف روم تک آیا تھا۔
" آپ کو شادی کی مبارکباد۔۔۔۔ "
( اس آدمی کو ہوا کیا ہے آج ؟؟؟؟ لگتا ہے چندی اتری ہوئی ہے آج۔۔۔۔ )
اس نے دل میں سوچا اور ہولے سے مسکرائی۔
" تھینک یو سر "
وہ کہہ کر اندر چلی گئی تھی۔ مہران پلٹا تو سامنے بلال کھڑا تھا۔
غصے میں مٹھیاں بھینچتا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
وہ ہنستا ہوا اسکی طرف بڑھا تھا۔
" اتنا غصہ سرجن صاحب ؟؟؟؟؟؟ دھیان سے سٹروک بھی ہو سکتا ہے "
" اس سے دور رہ مہران۔۔۔۔ "
وہ غرایا تھا
" تو عروج سے دور رہا تھا ؟؟؟؟؟؟ "
" وہ بیوی ہے میری "
" اور وہ میری منگیتر تھی۔۔۔۔۔ "
وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہا تھا۔
" خیر۔۔۔۔۔ یہ تو پرانی باتیں ہیں۔۔۔۔ نئ بات سن۔۔۔۔ تجھے ایسا سرپرائز دینے والا ہوں کہ تیری سات پشتیں بھی یاد رکھیں گی۔۔۔۔۔ تیار رہنا۔۔۔۔۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے "
وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" میں نے تم سے شادی سے پہلے ہی کچھ بکواس کی تھی فاطمہ اگر یاد ہو تو "
وہ غصے سے بولا تھا۔ وہ سہم گئی تھی
" اس سے بات نہیں کرنی۔۔۔۔ "
" بلال وہ بس حال چال۔۔۔۔۔ "
وہ منمنائ تھی
" حال چال ؟؟؟ رئیلی ؟؟؟ وہ جو کسی کے سوال کو جواب نہیں دیتا وہ حال چال پوچھ رہا تھا ؟؟؟؟ "
وہ طنزاً بولا تھا
" کم آن تم کوئی چھوٹی بچی نہیں ہو کہ جسے بتانا پڑے کہ فلاں سے بات نہیں کرنی، فلاں سے دور رہنا ہے۔۔۔ امیچیور حرکتیں کیوں کرتی ہو ؟؟؟؟ "
وہ اسے دیکھ کر رہ گئی
" میں امیچیور ہوں ؟؟؟؟ "
" میچیور ہوتیں تو اس کے منہ نا لگتیں۔۔۔۔ "
" بھاڑ میں گیا مہران۔۔۔۔ "
وہ حلق کے بل چلائی تھی
" اس دو ٹکے کے انسان کے لئیے آپ یہاں کٹہرا لگا کر کھڑے ہیں ؟؟؟؟؟ میں وہاں کسی بھی انسان سے ہنس کر بات کروں گی آپ تم یوں پیشیاں لگائیں گے میری ؟؟؟ "
" کوئی بھی انسان نہیں۔۔۔ صرف وہ۔۔۔ "
" واٹ ایور۔۔۔۔ "
وہ اسی کے لہجے میں بولی تھی
" چلاؤ مت۔۔۔۔ "
" اور آپ ۔۔۔ ؟؟؟ آپکو حق ہے چلانے کا ؟؟؟؟ "
وہ اسے دیکھ کر رہ گیا
" دیکھو فاطمہ جاہل عورتوں کی طرح بات کو بڑھاؤ مت۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ اس سے بات مت کرنا تو مت کرو "
" اچھا۔۔۔۔ اسے میں نے دعوت دی تھی بات کرنے کی ؟؟؟ چوبیس گھنٹے جہاں ساتھ رہنا ہو، کام کرنا ہو وہاں اگر ایک کولیگ دوسرے کو سلام کرلے، حال چال پوچھ لے تو کونسی قیامت آ جاۓ گی ؟؟؟؟ میں نے کونسا کھیل کھیل لیا ہے اسکے ساتھ ؟؟؟؟ "
" شٹ اپ "
وہ حلق کے بل چلایا تھا۔
" اب ایک لفظ بھی اور مت بولنا اپنے اور اسکے بارے میں۔۔۔۔۔۔ "
وہ بہت دیر تک خاموش کھڑی رہی تھی۔
" کیا چاہتے ہیں اب آپ ؟؟؟ چلی جاؤں میں یہاں سے ؟؟؟؟؟؟ "
اسے دونوں ہاتھوں میں سر پکڑے دیکھ کر وہ بولی تھی
" تم کیوں جاؤ گی۔۔۔ تم تو ویسے بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ میری طرف آئی ہو ناں۔۔۔ تم کہاں جاؤ گی۔۔۔ رہو یہیں۔۔۔ تمہارا گھر ہے۔۔۔۔ میں چلا جاتا ہوں۔۔۔۔ "
وہ کہہ کر اٹھا تھا اور باہر نکل گیا تھا۔
وہ خاموش کھڑی رہ گئی تھی۔
انکی چار ماہ کی شادی میں وہ پہلی لڑائی تھی۔ میاں بیوی کی ہر لڑائی کی طرح اسکا مین مدعا بھی فضول ترین بات تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سارا وقت بے مقصد یہاں وہاں گاڑی دوڑاتا پھرتا رہا تھا۔ پتہ نہیں کس بات کا غصہ تھا اور کس شخص پہ تھا۔ اس پہ، مہران پہ یا خود پہ۔۔۔۔
غصہ اترا تو ندامت اسے گھیرنے لگی تھی۔
وہ اسے محبت محبت کہتا تھا، اسے خود مختار ہونا سکھاتا تھا، عورت کی آزادی کی باتیں کرتا تھا اور اپنی عورت کے لئیے اتنا بے اعتبار، اتنا تنگ نظر تھا۔ یہ بات تو طے تھی کہ وہ شکی نہیں تھا۔۔۔ رو پھر وہ کیا تھا ؟؟؟؟؟؟
کیا اسے مہران سے ڈر تھا ؟؟؟؟؟
جو بھی، غلط وہی تھا۔
ضمیر کی عدالت اپنا فیصلہ سنا چکی تھی۔
وہ مغرب کی اذان سے زرا پہلے گھر لوٹا تھا۔ بیرونی دروازہ لاکڈ تھا۔ وہ گھر پہ نہیں تھی۔ اسے حیرانی ہوئی۔ وہ عام طور سے اکیلی باہر نہیں جاتی تھی۔ چھوٹی سے چھوٹی شے کے لئیے بھی اسکے انتظار میں رہتی تھی۔
خیر وہ اندر آیا۔
اسکا نمبر ملایا۔۔۔ اسکا فون اندر کمرے میں بجنے لگا تھا۔ تو وہ فون گھر پہ چھوڑ گئی تھی۔ اتنے میں مغرب کی اذان ہوگئی تھی۔
وہ نماز پڑھ کے فارغ ہوا تو اسکی بے چینی بڑھ چکی تھی۔ وہ اتنی دیر سے گھر پہ نہیں تھی۔ کہیں وہ لڑائی کی وجہ سے روٹھ کر تو نہیں چلی گئی۔ اس نے قیوم صاحب کا نمبر ملایا۔ وہ وہاں نہیں تھی۔ عینی سے رابطہ کیا۔ وہ لاعلم تھی۔
اب اسکے پیروں تلے سے زمین کھسکنے لگی تھی۔
اسے سی سی ٹی وی کا خیال آیا تھا۔ وہ جلدی سے سکرین کی طرف آیا اور کچھ دیر پہلے کی ریکارڈنگ کے لئیے پیچھے کرنا چاہا تو اس منظر پہ اٹک گیا۔
وہ مہران کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ رہی تھی۔ اسکے کانوں میں مہران کی بات گونج رہی تھی۔
" تجھے ایسا سرپرائز دینے والا ہوں کہ تیری سات پشتیں بھی یاد رکھیں گی۔۔۔۔۔ تیار رہنا۔۔۔۔۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہران کے دروازہ کھولتے ہی اس نے اسکی ناک پہ مکا مارا تھا۔
وہ چکرا کر رہ گیا۔
وہ اسکا گریبان پکڑ کے گھسیٹتا ہوا دیوار تک لے گیا اور اسکی گردن پہ دباؤ بڑھایا۔
" کمینے انسان۔۔۔۔ تو اس حد تک بھی جا سکتا ہے ؟؟؟؟ "
اسکا سانس گھٹنے لگا تھا۔ اسکا خون چہرے پہ اکٹھا ہو رہا تھا۔ ناک سے بھی خون بہنے لگا تھا۔
" کہاں ہے فاطمہ۔۔۔۔۔ بول۔۔۔۔ "
" ممم۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔ "
وہ کھانسا تھا۔
بلال نے اسکے منہ پہ مکا مارا اور اسے فرش پہ پٹخ دیا تھا
" وہ تیرے ساتھ گاڑی میں بیٹھی تھی۔ وہ ابھی تک گھر نہیں لوٹی۔۔۔۔ بول حرامی وہ کہاں ہے ؟؟؟؟؟ "
وہ گردن مسلتا بمشکل سانس لے پا رہا تھا
" مجھے نہیں پتہ "
بلال نے اسکے ٹھوکر ماری تھی
" جھوٹ مت بول "
وہ حلق کے بل چلایا۔ جواباً مہران اس سے اونچا چلایا تھا۔
" مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔۔ "
وہ اسے دیکھ کر رہ گیا تھا۔ بلال نے نفی میں سر ہلایا۔
" دیکھ۔۔۔۔ مہران۔۔۔۔۔ اگر یہ عروج کا بدلہ ہے تو۔۔۔۔ میں تیرے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں۔۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا تھا یار۔۔۔۔۔ میں بے گناہ ہوں۔۔۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تینوں ایک تکون کی طرح مشہور تھے۔
مہران خواجہ۔۔۔۔ عروج مہر علی۔۔۔۔ بلال فاروق۔۔۔۔
کالج میں اور پھر ہسپتال میں وہ تینوں ہی ساتھ ساتھ تھے۔ انکی دوستی بے مثال تھی۔ ہمہ وقت ایک دوسرے کا ساتھ کسی ایک کو ڈھونڈنا ہو تو باقی دونوں کو تلاشو۔۔۔ جہاں وہ، وہیں باقی کے دو۔۔۔۔
مہران اور بلال تو پہلے سے دوست تھے۔ عروج انہیں میڈیکل کالج میں ملی تھی۔ وہ ایک پروفیسر کی بیٹی تھی۔ انکی دوست بن گئی۔ رفتہ رفتہ اسکی اور مہران کی دوستی محبت میں بدلتی چلی گئی اور بات منگنی تک جا پہنچی۔۔۔۔
تب بھی ان کے درمیان کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔۔۔
سب ٹھیک تھا۔۔۔۔ ٹھیک ہی رہا تھا۔۔۔۔
تب تک جب تک عروج نے اسے میسج کرنا شروع نہیں کئیے تھے۔ وہ سامنے بیٹھی ہوتی، پاس مہران ہوتا اور وہ اسے میسج کر رہی ہوتی تھی۔
" میں گھٹن میں ہوں۔۔۔ میں ڈپریس ہوں۔۔۔ مجھے مدد چاہئیے۔۔۔۔ مہران کے ساتھ میرا دل نہیں مانتا۔۔۔ تم مجھے مشورہ دو۔۔۔ وہ ایسا ہے، وہ ویسا ہے۔۔۔ تم اچھے ہو۔۔۔۔ تم یہ تم وہ۔۔۔۔ "
وہ سب بڑھتا گیا تھا۔
اسکی حرکتیں بے باک ہونے لگی تھیں۔ اسکا اسکے لئیے التفات بڑھنے لگا تھا۔ اسکے لئیے وہ ایک دوست کی منگیتر تھی اور بس۔۔۔۔ لیکن وہ۔۔۔
" مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے بلال۔۔۔۔ "
وہ کانپ کے رہ گیا تھا۔ بہت دنوں تک وہ ڈرا ڈرا رہا تھا۔ وہ مہران دیکھ لیتا تو کیا ہوتا۔۔۔۔
اس دن کے بعد رومانوی میسج شروع ہوگۓ۔۔۔ شعر۔۔۔ محبت کی باتیں۔۔۔ اظہار۔۔۔۔
اس نے اسے سختی سے منع کردیا تھا
" انف۔۔۔۔ آج کے بعد تم مجھے کوئی میسج یا کال نہیں کرو گی۔۔۔۔ سمجھ آئی ہے۔ میرے اور تمہارے درمیان کچھ نہیں ہے۔۔۔ دوستی بھی نہیں ہے۔۔۔۔ "
وہ اس دن کے بعد سے اس سے کھنچا کھنچا رہنے لگا تھا۔ اس سے دور دور۔۔۔۔
وہ ہاؤس جاب کر رہے تھے۔۔۔
یہ اس رات کی بات ہے جب نائٹ ڈیوٹی پہ بلال کے ساتھ عروج تھی۔ وہ وارڈ سے راونڈ لگا کر آیا تو اسے اسکا میسج آیا۔ وہ اسے چھت پہ بلا رہی تھی۔ وہ آنا نہیں چاہتا تھا لیکن اس نے کہا کہ مہران بھی ہے تو وہ اوپر چلا آیا۔
وہ اکیلی ٹہل رہی تھی۔
" تم ایسے۔۔۔ اس وقت۔۔۔۔ مہران کہاں ہے ؟؟؟؟ "
مہران نہیں تھا۔۔۔۔ وہ عروج بھی نہیں تھی۔اسکا زوال تھا۔۔۔ وہ تو کوئی اور ہی تھی۔۔ اسکی بد قسمتی۔۔۔۔
اور پھر وہ سب ہوتا چلا گیا تھا۔
اسکا چیخنا چلانا۔۔۔۔ لوگوں کا اکٹھا ہونا۔۔۔۔ اسکے خود کے کپڑے پھاڑنا۔۔۔۔ مار پیٹ۔۔۔۔۔ خون۔۔۔۔ مہران آیا۔۔۔۔ اسے مار مار کے بے حال کردیا۔۔۔۔۔
دنیا میں سب سے آسان کسی پہ الزام لگانا ہی تو ہے۔۔۔۔ زیادہ کچھ نہیں کرنا پڑتا۔۔۔ بس چلاؤ اور کہو۔۔۔۔ کوئی ہے۔۔۔۔۔ مدد کرو۔۔۔۔ ہاں یہ ۔۔۔۔ اس نے۔۔۔۔ اس نے نے کیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" مجھے پتہ تھا وہ جھوٹی تھی بلال۔۔۔ مجھے پتہ تھا وہ کیس سے کیوں پیچھے ہٹی۔۔۔ اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔ وہ مظلوم نہیں تھی "
وہ ناک سے خون صاف کرتا اس سے کہہ رہا تھا
" پھر کیوں۔۔۔۔ کیوں اتنے عرصے تک مجھے مجرم کہا۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟ "
" کیونکہ تو مجرم تھا۔۔۔۔۔۔ میرا مجرم۔۔ "
وہ اسے دیکھ کر رہ گیا
" تو نے مجھ سے سچ چھپایا۔۔۔ پہلے دن جب میری محبت مجھ سے دغا کرنے کو تھی، تو نے اسی دن مجھے سچ نہیں بتایا۔۔۔۔ یہ پردہ پوشی نہیں تھی بلال، یہ جرم تھا۔۔۔ وہ مجھ سے میرے منہ پہ جھوٹ بولتی رہی اور تو سچ جانتے ہوئے بھی چپ رہا۔۔۔۔ یہ بھی تو زیادتی ہی تھی۔۔۔۔ زیادتی تو کی تھی تو نے۔۔۔۔۔ "
وہ کرب سے اسے دیکھتا کہہ رہا تھا اور بلال کے پاس دینے کو کوئی صفائی نہیں تھی۔
" وہ جھوٹی تھی۔ تو بھی جھوٹا تھا۔ اس نے الزام لگایا۔ تو نے سچ چھپایا۔۔۔۔ میں کیوں نا کہتا تجھے دشمن۔۔۔۔ تو دوست تو نہیں تھا۔۔۔۔ "
اس نے کف سے بہتا خون صاف کیا تھا
" سن۔۔۔۔ میں تیرے جیسا کم ظرف نہیں ہوں۔۔۔۔ میں عورت کا بدلہ عورت سے لینے پہ مر جانا قبول کروں گا۔۔۔۔ وہ یہاں نہیں ہے۔۔۔۔ مجھے پتہ ہوتا کہ وہ کہاں ہے تو اللہ کی قسم ہے اسے خود گھر پہنچا کے آتا۔۔۔۔ "
بلال تھک کر فرش پہ بیٹھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے لگ رہا تھا سارے زمانے میں سب سے سیاہ زشت انسان وہ ہے کہ اپنی محبت کو نا سنبھال سکا۔ اب بھی وہ سر ہاتھوں میں جکڑے، خاموش سا صوفے پہ بیٹھا انہی سوچوں میں غلطاں تھا جب اس نے بیرونی دروازہ کھلنے کی آواز سنی تھی۔
دروازہ اس نے لاک کیا تھا اور باہر سے لاک بس وہی کھول سکتی تھی۔ وہ فوراً اٹھا اور آندھی طوفان کی طرح باہر آیا تھا۔
وہ حیرانی سے اسے دیکھتی اندر آئی تھی۔
" بلال۔۔۔۔ آپ ابھی تک جاگ۔۔۔۔۔ "
اس کا فقرہ درمیان میں رہ گیا تھا۔ وہ جلدی سے آگے بڑھا اور اسے زور سے گلے لگا لیا تھا۔ وہ اسکے وجود میں دور تک چھپتی چلی گئی تھی۔
" تم۔۔۔۔ اللہ۔۔۔۔۔ شکر ہے۔۔۔۔۔ شکر ہے۔۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔ "
اسکا بے تحاشا دھڑکتا دل وہ اپنے سینے میں محسوس کر سکتی تھی۔ وہ اس سے علیحدہ ہوا اور اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے کٹورے میں لیا۔
" تم ٹھیک ہو ناں۔۔۔۔ ؟؟؟؟ تمہیں کوئی چوٹ تو نہیں آئی ؟؟؟؟؟ فاطمہ تم۔۔۔۔۔ "
وہ بچوں کی طرح اسے پوچھ رہا تھا۔ وہ بس حیرانی سے اسے دیکھتی جا رہی تھی۔
" میں ٹھیک ہوں بلال۔۔۔۔ کیا ہوا آپ ایسے کیوں ؟؟؟؟؟؟ "
تو اسے کچھ پتہ ہی نہیں تھا ؟؟؟؟؟
وہ قیامت کو چھو کر لوٹ آیا تھا اور وہ۔۔۔۔۔۔۔۔
" تم کہاں گئی تھیں ؟؟؟؟؟؟ "
جواباً اس نے مٹھی میں دبی وہ سٹرپ اسکے سامنے کی تھی۔ اس پہ دو لائینیں دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ بہت دیر تک بے یقینی سے اسے دیکھتا رہ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلال کو گھر سے نکلے بہت دیر ہو چکی تھی۔ وہ مغرب سے کچھ دیر پہلے کا وقت تھا۔ فاطمہ کچن میں سالن بنا کر رکھ چکی تھی۔ ابھی اس نے ڈھکن ڈھکا ہی تھا کہ اسکا دل گھبرانے لگا تھا۔ پسینے سے چھوٹ گۓ اور جی متلانے لگا تھا۔ اس نے پانی کا گلاس بھرا اور وہیں ڈائننگ کی کرسی پہ بیٹھ کر پینے لگی۔
اسے محسوس تو بہت دنوں سے ہو رہا تھا کہ کچھ تو ہو رہا ہے۔ بس وہ اسے کنفرم نہیں کر پا رہی تھی۔
اب بھی اس نے وقت دیکھا۔ مغرب میں ابھی پندرہ منٹ تھے۔
اس نے والٹ اٹھایا اور چابیاں لئیے باہر نکل آئ۔ فون چارجنگ پہ تھا اور اس نے جان بوجھ کر نہیں لیا تھا۔
" یہ دو منٹ کے لئیے تو جا رہی ہوں۔ ابھی واپس لوٹ آؤں گی "
وہ دروازہ لاک کر کے باہر آئی۔ گیٹ پہ رکشے کے انتظار میں کھڑی تھی جب اس نے مہران کی گاڑی دیکھی۔
" یہ۔۔۔۔۔ یہاں۔۔۔۔ اس وقت ؟؟؟؟؟ "
اس نے اچھنبے سے سوچا تھا۔ گاڑی اسکے پاس رکی اور شیشہ نیچے ہوا
" کیسی ہیں فاطمہ ؟؟؟؟؟ "
" دن میں دو دو بار حال چال ؟؟؟؟؟ "
وہ ہنس پڑا
" سرجن صاحب کہاں ہیں ؟؟؟؟؟ "
" باہر گۓ ہیں۔۔۔۔ خیریت ؟؟؟؟ "
" جی جی خیریت۔۔۔۔ اور آپ یہاں ؟؟؟؟ خیریت ؟؟؟؟ "
" مارکیٹ تک جا رہی تھی "
" چلیں میں چھوڑ دوں "
" نہیں شکریہ۔۔۔۔ "
( ابھی اس سے بات کرنے پہ اتنا فساد مچا تھا، وہ اسکے ساتھ بیٹھ جاتی تو بلال کیا کچھ نا کرتا۔۔۔۔۔ )
وہ اسے دیکھ کر رہ گیا
" فاطمہ آئی ایم سوری۔۔۔۔ میں بہت روڈ ہوگیا تھا آپ کے ساتھ۔۔۔ میرے اور بلال کے درمیان جو بھی کچھ رہا ہو، آپ کے ساتھ بد تمیزی نہیں کرنی چاہئیے تھی۔ میں سچ میں معذرت کر رہا ہوں۔ وہ گھر پہ ہوتا تو اسکے سامنے آپ سے سوری کرتا۔ بٹ ابھی کے لئیے سوری "
وہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔
" چلیں آئیں آپکو مارکیٹ چھوڑ دوں۔ ایک بھائی کے طور پہ کہہ رہا ہوں۔ اتنا حق تو بنتا ہے میرا۔۔۔۔ "
وہ کچھ دیر سوچتی رہی پھر دوسری طرف سے جا کر بیٹھ گئی تھی۔ دو تین منٹ کی ڈرائیو پہ میڈیکل سٹور تھا۔ وہ اسے اتار کے چلا گیا تھا۔ وہ کاؤنٹر تک پہنچی ہی تھی اور پریگننسی سٹرپ مانگی تھی کہ اسکی نظر اس بوڑھی عورت پہ پڑی تھی۔ بے تحاشا روتی ہوئی، پریشانی کے عالم میں وہ، ان دواؤں کا پرچہ لئیے کھڑی تھی۔
" میری بیٹی بیمار ہے۔ بچہ ہونے والا ہے۔ غریب کی جورو۔ نا دائ نا ڈاکٹر۔۔۔۔ وہ درد سے بے حال ہے۔ کوئی مدد کرو۔۔۔۔ میں نمانی۔۔۔۔ "
اپنی مطلوبہ شے لیکر پیمنٹ کرنے تک وہ فیصلہ کر چکی تھی۔ مائ کے آنسو اسکے دل کو بھگو رہے تھے۔
" کدھر گھر ہے آپکا ؟؟؟؟؟ "
وہ اسے بتانے لگی۔ اس نے پرچہ دیکھا۔ کچھ اور ضروری دوائیں لیں۔ پٹیاں، روئ وغیرہ۔ بلال تو ویسے بھی گھر پہ نہیں تھا اور پتہ نہیں کب واپس لوٹتا۔ فون اسکے پاس تھا نہیں کہ اسے کال کر لیتی۔ اس نے فیصلہ کیا اور اماں کے ساتھ آگئ۔
چھوٹا سا گھر۔۔۔۔ دردِ زہ سے کراہتی وہ لڑکی۔۔۔۔ خون میں لت پت ٹانگیں۔۔۔ مفلوک الحال۔۔۔۔ غربت۔۔۔ بے بسی۔۔۔۔۔
اس نے اللّٰہ کا نام لیا اور اندر آگئ تھی۔ بان کی کھاٹ بھیگی ہوئی تھی۔
ڈیڑھ گھنٹے کی مشقت تھی۔ وہ سرجن تھی بھئی۔۔۔ یہ اسکا کام تھا۔ وہ لڑکی اسے دیکھ کر ہمت پکڑ چکی تھی۔ اب وہ روتا ہوا زرا سا بچہ اسکے ہاتھوں میں تھا۔
" ماشاءاللہ۔۔۔۔ میرا پوترا۔۔۔۔ ماشاءاللہ۔۔۔۔ "
وہ عورت نہال تھی۔
خوش تو وہ خود بھی تھی۔ رخساروں پہ خون پسینہ اور آنسو سب ایک ساتھ بہہ رہے تھے۔
انہوں نے اسے روک لیا تھا۔
" اور تو کچھ نہیں بیٹی۔۔۔ دو ٹکڑے مٹھائی کھاتی جا۔۔۔ رک جا ناں۔۔۔۔ "
محبت کے آگے ناں ناں کرتے جاؤ تو وہ برا منا جاتی ہے۔ وہ منہ ہاتھ دھونے کو واش روم میں آئی تو اس سٹرپ کا خیال آیا تھا۔
کچھ دیر بعد جب وہ مائ کے ہاتھ سے برفی کا ٹکڑا کھا رہی تھی تو اسے لگ رہا تھا وہ اپنی خوشخبری پہ منہ میٹھا کر رہی ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رب بہت بڑا دینے والا ہے۔ اس جیسا پالن ہار کوئی ہے ہی نہیں۔ اسے پتہ تھا وہ لڑکی کسی کو اولاد کی خوشی دلانے میں مدد کرنے والی ہے تو اس نے اسے پہلے سے ہی وہ نعمت دے چھوڑی تھی۔
بلال نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا اور لمبی سانس لی تھی۔ وہ جھلملاتی نظروں سے، پریگننسی سٹرپ اسکے سامنے کئیے کھڑی تھی جس پہ دو لائینیں اسے " فبای آلا ربکما تکذبان " کہہ رہی تھیں۔ اس نے آگے بڑھ کر اسکا ماتھا چوم لیا تھا۔
" مجھے معاف کردو فاطمہ۔۔۔۔ میں نے بہت زیادتی کی آج۔۔۔۔۔ "
" کیا وہ زیادتی تھی ؟؟؟؟ "
وہ ہولے سے بولی تھی۔
" بالکل تھی۔ میں کون ہوتا ہوں روک ٹوک کرنے والا۔ مجھے اگر اپنی بیوی پہ اتنا بھی اعتبار نہیں ہے کہ وہ اپنی حفاظت خود کر سکتی ہے، اپنا اچھا برا خود سمجھ سکتی ہے تو لعنت ہے مجھ پہ۔۔۔۔۔ "
وہ چپ رہ گئی۔
" میں تمہیں کیسے بتاؤں میں کتنا کتنا خوش ہوں فاطمہ۔۔۔۔۔ "
وہ اسے ساتھ لگاۓ لگاۓ اندر کی طرف بڑھا تھا
" مجھے پتہ ہے آپ نہیں بتا سکیں گے کیونکہ میں خود کو بھی یہ نہیں بتا پا رہی۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے ثمینہ کے منہ پہ تھپڑ مارا تھا۔ وہ ششدر رہ گئی
" چنڈالنے۔۔۔۔ وہ تیری زیادہ سگی ہے جو بھابھی بھابھی کر رہی ہے۔۔۔۔ "
وہ گال پہ ہاتھ رکھے سر جھکا گئی تھی۔
" یہ منڈا۔۔۔ یہ ہمیں ذلیل و خوار کر کے چھوڑے گا۔۔۔ ہاۓ کل موہن وہ حرام زادی۔۔۔۔ دنوں میں ماں بھی بن گئی۔۔۔۔ چلتر عورت۔۔۔۔ "
جب سے اس نے انہیں بلال کے فون کا اور اسکی سنائی خوشخبری کا بتایا تھا، وہ ایسے ہی پھنپھنا رہی تھیں۔ جی چاہتا تھا ہر شے کو آگ لگا دیں۔۔۔۔
" فاروق۔۔۔۔۔ کے خاندان میں ملاوٹ۔۔۔۔ استغفار۔۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔۔ وہ ڈشکری اب اس خاندان کا بچہ پیدا کر گی۔۔ "
رات گۓ تک وہ تینوں بھائی انکے کمرے میں ہی تھے۔
" کچھ کرو۔۔۔۔ کچھ کرو۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جاۓ۔۔۔۔ تیرے چاچوں سے تو ابھی تک میں اسکا ویاہ چھپاتی پھر رہی ہوں، یہ باپ بننے والی بات باہر آگئی تو سمجھو میرے سر میں سواہ۔۔۔۔۔ "
وہ مسلسل بول رہی تھیں
" یہ شان بھی جاۓ گی، یہ گدی، یہ زمینیں اور حویلی۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ میں یہ سب نہیں ہونے دوں گی۔۔۔ "
" آپ حکم کریں ہمیں کیا کرنا ہے "
انہوں نے باری باری ان تینوں کو دیکھا تھا
" ہاں تمہیں ہی کرنا ہے۔۔۔۔ تمہرای ہی ذمہ داری ہے۔۔۔ پر کرنا احتیاط سے ہے۔۔۔ ایسے کہ سانپ بھی مر جاۓ اور وہ سنپولیا بھی۔۔۔۔۔ "
اس لمحے انکی آنکھیں سیاہ رات جیسی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" بس ایک لقمہ اور یار۔۔۔۔ "
" نہیں۔۔۔۔ پلیز بلال اور نہیں۔۔۔۔ میں الٹ دوں گی ورنہ سب کچھ۔۔۔۔ "
اس نے زبردستی وہ نوالہ اسکے منہ میں ٹھونسا تھا۔
" مجھے تمہارے جیسا سوکھا سیخ سلائی بچہ نہیں چاہئیے۔ سمجھیں ؟؟؟؟ "
اس نے منہ بنایا
" اب میں بری سوکھی سڑی چمڑخ ہو گئی ؟؟؟؟ "
وہ ہنسا
" یہ چمڑخ میں نے نہیں کہا۔۔۔۔ "
وہ برتن سمیٹنے لگا تھا۔ فاطمہ نے اٹھنا چاہا
" میں کرتی ہوں ناں بلال "
" نہیں !!!! "
اس نے سختی سے کہا تھا
" تم عورتیں نا آدمیوں کو خود سر پہ چڑھاتی ہو۔ ہر کام آگے آگے ہو کے خود سے کرنے کی کوشش کرتی ہو۔ اپنا حصہ گھٹاتی جاتی ہو اور شوہر کا بڑھاتی جاتی ہو۔ وہ تو پہلے ہی ذات سے راجہ مہاراجہ ہے۔ اسکی کنیز بنو گی تو وہ خوشی خوشی بناۓ گا۔۔۔ تم ملکہ ہو۔۔۔ وہیں رہو۔۔۔ اسی مرتبے پہ۔۔۔۔ "
قہ اسے دیکھ کر رہ گئی
" مجھے بگاڑ رہے ہیں آپ "
وہ مسکرایا اور آگے بڑھ کے اسکے ماتھے پہ لب رکھے
" کوئی بات نہیں۔۔۔ مجھے بگڑیل بیوی بھی قبول ہے۔۔۔ تم بگڑو تو سہی۔۔۔۔ "
وہ برتن سمیٹتا کچن میں چلا گیا تھا۔
" چلیں پھر۔۔۔۔ میرے پاؤں بھی دبائیں "
وہ شرارت سے بولی تھی۔
" جو حکم مادام۔۔۔۔۔ "
وہ سینے پہ ہاتھ رکھ کر جھکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں ہسپتال سے ساتھ ہی نکلے تھے۔
وہ اوور آل پہنے ہوۓ تھی اور بلال نے بازو میں لٹکا رکھا تھا۔
" کیا کھاؤ گی لنچ میں ؟؟؟؟ "
" کچھ بھی لیکن آپ کے ہاتھ کا نہیں۔۔۔ "
اس نے کونوں کو ہاتھ لگاۓ تو وہ ہنسا
" ناشکری عورت ہو ویسے تم۔۔۔۔ "
" اور دنیا کے بدذائقہ ترین پکانے والے باورچی ہیں آپ "
اس نے اسکے لئیے فرنٹ کا دروازہ کھولا۔ وہ بیٹھ گئی تو۔ بند کیا اور دوسری طرف بڑھا۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر بیٹھنے کو تھا جب اس کی نظر سامنے پڑی۔ دور کھڑی گاڑی میں وہ دو آدمی تھے۔
وہ ٹھٹھک گیا تھا۔۔
انکے ہاتھوں میں رائفلیں وہ اتنی دور سے بھی دیکھ سکتا تھا۔ وہ انہیں ہی دیکھ رہے تھے اور انکا نشانہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کانپ کے رہ گیا تھا۔
فاطمہ کی عادت تھی وہ بیٹھتے ہی شیشہ کھول لیتی تھی۔ اب بھی اس نے یہی کیا تھا۔
ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ گاڑی کی دوسری طرف کو بھاگا تھا۔
" فاطمہ جھک جاؤ۔۔۔۔ "
گولی چل گئی تھی۔۔۔۔۔
ایک۔۔۔۔ دو۔۔۔۔ چار۔۔۔۔ سات۔۔۔۔
خون۔۔۔۔۔ چیخیں۔۔۔۔ بارود کی بو۔۔۔۔۔۔
اور۔۔۔۔۔۔
موت کا احساس۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخری قسط کل شام ان شا اللہ
نوٹ : کمزور دل والے افراد آخری قسط اپنے رسک پہ پڑھیں۔۔۔۔۔
Post a Comment
Post a Comment