Mere Jeeny Ki Wajah Online Urdu Novel by Eshal Rana Social Romantic Urdu Novel in Pdf Complete Posted on Novel Bank.
تیری صورت کو نگاہوں میں بسا کے رکھوں
دل یہ کرتا ہے تجھے تجھ سے چرا کے رکھوں
تجھے دیکھوں تجھے چاہوں تجھ سے پیار کروں
تیری رنگ روپ کو میں سب سے چھپا کے رکھوں ۔
وہ ایک ایک قدم اسکی طرف بڑھا رہا تھا ۔ وہی اسوہ کے دل میں ہل چل سی مچی تھی۔ وہ خود ان پل کے حصار میں تھی ۔
کر لوں قید اپنے دل میں تیرے جیون کو
تجھے میں عشق کی زنجیر پہنا کے رکھوں
کوئی بھی جان نہ پاۓ تیری آنکھوں کی گہرائی
میں تجھے ایسی کنول جھیل بنا کے رکھوں
دل یہ کہتا ہے تیرے بعد کوئی تجھ سا نہ ہو
میں تجھے آخری تحریر بنا کے رکھوں ۔
وہ چلتا اب بلکل اس کے قریب آچکا تھا ۔ اس کے سامنے آتے وہ مسکراتا گھٹنوں کے بل نیچے زمین پر بیٹھا۔
اسوہ بس اس کے ہر ایک عمل کو دیکھے گئ ۔
جھک کر تیرے آگے میں پھر اقرار کرتا ہوں ۔۔
میں تجھ سے میری جان بہت پیار کرتا ہوں ۔
وہ گلاب کا پھول اسے پیش کرتا اپنا سر جھکاتے بولا ۔
مجھے نہیں پتہ تھا کہ ایک نظر کی پسندیدگی میری دیوانگی بن جائے گی ۔ مجھے نہیں پتہ تھا تم میری زندگی بن جاؤ گی ۔ مجھے نہیں پتہ تھا میری ہر چلتی سانس کیلئے تم ضروری ہوجاؤ گی۔ مجھے نہیں پتہ تھا مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہوجاؤ گی ۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ تم میرے جینے کی وجہ بن جاو گی ۔ مجھے نہیں اندازہ تھا کہ میں حاشر شاہ اتنا بے بس اور مجبور ہوجاؤں گا کہ آج مجھے اپنی مجبت کی بھیک مانگنا پڑے گی ۔
ہاں اسوہ ہاں ۔ میں آج تم سے بھیک مانگنے آیا ہوں اپنی محبت کے اقرار کی ، اپنے سکون کی بھیک ، اپنی زندگی کی بھیک ۔ اب وہ باقاعدہ پھول ایک طرف رکھ کر اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتے بول رہا تھا ۔
مجھے زندگی کی نوید سنا دو اسوہ ۔ میری محبتوں کو قرار دے دو اسوہ ۔ میرے دل کو سکون پہنچا دو اسوہ۔ ایک آنسو ٹوٹ کر اس کے گال پر پھسلا ۔۔
وہی ایک آنسو اسوہ کی آنکھ سے نکلا ۔ اور چہرے سے پھسلتا حاشر کی پھیلی ہتھیلی پر گرا ۔ اپنی ہتھیلی پر نمی محسوس کرتے اس نے سر اٹھا کر اسوہ کو دیکھا جو خاموش آنسو بہا رہی تھی ۔۔اور نفی میں سر ہلا رہی تھی۔ پل میں حاشر کو ایک دفعہ پھر اپنی محبت کے رد ہوجانے کا احساس ہوا ۔
اگلے ہفتے میری منگنی ہے ۔ الفاظ تھے یا سور ۔ حاشر کو دنیا ہلتی محسوس ہوئی ۔ اور وہ خاموش نظروں سے اسوہ کے چہرے کو دیکھ رہا تھا ۔ جو اب کسی مجرم کی طرف سر جھکاے کھڑی تھی ۔
محبت کرتی ہو مجھ سے ۔ اپنے آنسو صاف کرتے وہ سنجیدہ لہجے میں بولا ۔
اسکی آواز سنتے اسوہ نے حاشر کی طرف دیکھا ۔۔
محبت کرتی ہو مجھ سے۔ سوال ایک دفعہ پھر دہرایا گیا۔
بیس دن بعد میری رزم سے شادی ہے ۔ وہ آنکھیں جھکا کر بولی۔
یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے اسوہ ۔ مجھے بس یہ بتاو مجھ سے محبت کرتی ہو کہ نہیں ۔ وہ آنکھوں میں دنیا جہاں کا غصہ سماے خونخوار لہجے میں بولا۔
بتاؤ مجھ سے محبت کرتی ہو کہ نہیں ۔ وہ اسے کندھے سے پکڑ کر غصے سے بولا ۔
نہیں ۔۔نہیں۔ نہیں ۔ نہیں کرتی میں تم سے محبت ۔ سن لیا تم نے نہیں کرتی کوئی محبت ۔ میری شادی رزم سے ہونے والی ہے ۔ تو میں محبت بھی اس سے ہی کرتی ہوں ۔
اور میں بھیک مانگتی ہوں تم سے خدارا چلے جاؤ میری زندگی سے ۔ چھوڑ دو میرا پیچھا ۔ مت پریشانیاں بڑھاو میرے لیے ۔ پلیز چلے جاؤ حاشر پلیزززز ۔ مشکلات بڑھاو میرے لیے۔ پہلے غصے سے پھر روتے وہ نیچے بیٹھتے اس کے آگے ہاتھ جوڑتی بولی ۔ اور وہ ششدر اسے دیکھتا رہ گیا ۔
اور کچھ پل کے بعد بولا ۔
میں وعدہ کرتا ہوں تم سے اسوہ اسعد علی حاشر شاہ کی وجہ سے تمہیں کبھی بھی کوئی مشکل برداشت نہیں کرنی پڑے گی ۔ شوق سے کرو تم شادی ۔ میں تمہاری محبت بھری شادی میں رکاوٹ نہیں بنو گا ۔ باہر ڈرائیور کھڑا ہے ۔ تمہارا آنے کا شکریہ ۔ تمہیں میری وجہ سے تکلیف ہوئی اس کیلۓ معزرت۔ تم جا سکتی ہو۔ وہ پیٹھ موڑتا آنکھ میں آیا آنسو صاف کرتا پتھراے سے لہجے میں بولا ۔
ابھی اسوہ نے جانے کیلئے قدم باہر رکھا ہی تھا کہ ایک زوردار آواز سے وہ چیخ مارتے رکی ۔
Post a Comment
Post a Comment